566/732 عن جابر بن عبد الله قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم – وارتفعت ريح خبيثة منتنة- فقال:" أتدرون ما هذه؟ هذه ريح الذين يغتابون المؤمنين". [وفي رواية:"إن ناساً من المنافقين اغتابوا أناساً من المسلمين، فبعثت هذه الريح لذلك" /733].
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ نہایت بدبودار آندھی چلنے لگی جو اونچی ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو یہ کیا ہے؟ یہ ان کی بدبو ہے جو ایمان داروں کی غیبت کرتے ہیں۔“ ایک روایت میں ہے کہ کچھ منافقین نے کچھ مسلمانوں کی غیبت کی ہے یہ آندھی اسی وجہ سے چلائی گئی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 566]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 567
567/734 عن ابن أم عبد [ ابن مسعود] قال:" من اغتيب عنده مؤمن فنصره، جزاه الله بها خيراً في الدنيا والآخرة، ومن اغتيب عنده مؤمن فلم ينصره، جزاه الله خيراً في الدنيا والآخرة، ومن اغتب عنده مؤمن فلم ينصره، جزاه الله بها في الدنيا والآخرة شراً، وما التقم أحد لقمة شراً من اغتياب مؤمن؛ إن قال فيه ما يعلم، فقد اغتابه، وإن قال فيه بما لا يعلم، فقد بهته".
ابن امِ عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کے پاس کسی مومن کی غیبت کی گئی، اس نے اس کی حمایت کی، اللہ اسے دنیا و آخرت میں بہتر بدلا دے گا، جس کے پاس کسی مومن کی غیبت کی گئی ہو اور اس نے اس کی حمایت نہ کی ہو، اللہ اسے اس کے بدلے میں دنیا آخرت میں برا بدلہ دیں گے اور کسی نے اس سے بدتر لقمہ نہیں کھایا کہ وہ مومن آدمی کی غیبت کرے اگر اس میں واقعی وہ چیز پائی جاتی ہو جس کو وہ جانتا ہو تو اس نے غیبت کی اور اگر اس نے ایسی بات کہی جس کو نہیں جانتا تو اس نے اس پر الزام تراشی کی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 567]