صحيح الادب المفرد
حصہ دوئم: احادیث 250 سے 499
210.  باب دعاء العائد للمريض بالشفاء
حدیث نمبر: 405
405/520 عن ثلاثة(1) من بني سعد- كلهم يحدث عن أبيه-: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على سعد يعوده بمكة ؛ فبكى. فقال:" ما يبكيك؟". قال: خشيت أن أموت بالأرض التي هاجرت منها، كما مات سعد(2). قال:"اللهم! اشفِ سعداً" (ثلاثاً). فقال: لي مال كثير، يرثني ابنتي، أفأوصي بمالي كله؟ قال:"لا". قال: فبالثلثين؟ قال:"لا". قال: فالنصف. قال:"لا"، قال: فالثلث؟ قال: الثلث، والثلث كثير، إن صدَقَتك من مالك صدقة، ونفقتك على عيالك صدقة، وما تأكل امرأتك من طعامك لك صدقة، وإنك أن تدع أهلك بخير- أو قال: بعيشٍ- خير من أن تدعهم يتكففون الناس"، وقال بيده.
سعد کے تین بیٹوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سعد کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو سعد رضی اللہ عنہ رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کیوں روتے ہو؟ کہا: مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں اس زمین میں نہ مر جاؤں جہاں سے میں نے ہجرت کی ہے جیسا کہ سعد (بن خولہ) انتقال کر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: اے اللہ! سعد کو شفا دے۔ پھر سعد نے کہا: میرے پاس بہت سا مال ہے، جس کی وارث صرف میری بیٹی ہو گی، کیا میں اپنے پورے مال کی (اللہ کے راستے میں) وصیت کر جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: دو تہائی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: اچھا ایک تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ایک تہائی مال کی اور ایک تہائی بھی بہت ہے، تم نے اپنے مال میں جو صدقہ دیا وہ صدقہ ہے اور تمہارا اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ اور جو تمہارے کھانے سے تمہاری بیوی کھا لے وہ صدقہ ہے، اور یہ کہ تم اپنے اہل و عیال کو مال و دولت یا کہا: گزران کے ساتھ چھوڑو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ تم اسے اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔ اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 405]
تخریج الحدیث: (صحيح)