صحيح الادب المفرد
حصہ اول: احادیث 1 سے 249
104.  باب الخروج إلى المبقلة وحمل الشيء على عاتقه إلى أهله بالزبيل
حدیث نمبر: 174
174/234 عن عمرو بن أبي قرة الكندي قال:" عرض أبي على سلمان أخته، فأبى وتزوج مولاة له يقال لها: بقيرة، فبلغ أبا قرة أنه كان بين حذيفة وسلمان شيء، فأتاه يطلبه، فأخبر أنه في مبقلةٍ له، فتوجه إليه، فلقيه ومعه زبيل فيه بقل؛ قد أدخل عصاه في عروة الزبيل- وهو على عاتقهِ – فقال: يا أبا عبد الله! ما كان بينك وبين حذيفة؟ قال: يقول سلمان:? وكان الإنسان عجولاً?[الإسراء: 11]، فانطلقاً حتى أتيا دار سلمان، فدخل سلمان الدار، فقال: السلام عليكم، ثم أذن لأبي قرة، فدخل، فإذا نمط(3) موضوع على باب وعند رأسه لبنات، وإذا قرطاط(4) فقال: اجلس على فراش مولاتك التي تمهد لنفسها، ثم أنشأ يحدثه فقال: إن حذيفة كان يحدث بأشياء ؛ كان يقولها رسول الله صلى الله عليه وسلم في غضبه لأقوام، فأوتى فأسأل عنها؟ فأقول: حذيفة أعلم بما يقول، وأكره أن تكون ضغائن بين أقوام، فأتي حذيفة، فقيل له: إن سلمان لا يصدقك ولا يكذبك بما تقول! فجائني حذيفة فقال: يا سلمان ابن أم سلمان! فقلت: يا حذيفة ابن أم حذيفة! لتنتهين، أو لأكتبن فيك إلى عمر، فلما خوفته بعمر تركني، وقد قال رسول صلى الله عليه وسلم:" من ولد آدم أنا، فأيما عبدٍ من أمتي لعنته لعنة، أو سببته سبةً، في غير كنهه، فاجعلها عليه صلاة".
عمرو بن ابوقرۃ کندی کہتے ہیں، میرے والد نے سلمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی بہن کا رشتہ پیش کیا، تو انہوں نے انکار کیا اور اپنی آزاد کردہ لونڈی سے نکاح کر لیا جس کا نام بقیرہ تھا۔ ابوقرہ کو یہ بات پہنچی کہ حذیفہ اور سلمان کے مابین کوئی بات (کوئی ناچاقی) ہے، وہ سلمان کو تلاش کرتے ہوئے آئے۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی ترکاریوں کی کیاریوں پر (اپنے کھیت میں) ہیں۔ وہ اسی طرف چلے تو سلمان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ایک ٹوکرا اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا جس میں سبزیاں تھیں اور اپنی لاٹھی ٹوکرے کے کنڈے میں ڈالی ہو ئی تھی، ابوقرہ نے کہا: اے ابوعبدللہ! آپ کے اور حذیفہ کے مابین کیا بات (ناچاقی) ہے؟ بیان کرتے ہیں: سلمان کہتے ہیں: «‏وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُولاً» ‏ ‏، انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے، ہم دونوں (ابوقرہ اور سلمان) چلتے رہے یہاں تک کہ سلمان کے گھر پہنچے، سلمان اپنے گھر میں داخل ہوئے اور کہا: السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ پھر ابوبقرہ کو اجازت دی کہ اندر آ جائیں، تو وہ بھی اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ دروازے پر چمڑے کا بستر رکھا ہو ا تھا اور اس کے کنارے پر کچھ اینٹیں تھیں اور تھوڑی سی زین کا کپڑا تھا، تو انہوں نے کہا: اپنی لونڈی کے بستر پر بیٹھیں یہ وہ بستر ہے جو وہ اپنے لیے بچھاتی ہے (یہ صحابہ کرام کی انتہائی سادگی کا بیان ہے مطلب یہ ہے کہ ایک چمڑے کا فراش بچھایا ہوا تھا، اینٹیں رکھی ہوئی تھیں اور اینٹوں پر ایک زین رکھی ہوئی تھی اسے تکیے کی صورت دی ہوئی تھی) وہاں ایک بستر پڑا ہے، سرہانے پر اینٹیں رکھی ہیں، کچھ ترکاری کے ٹکڑے پڑے ہیں، سلمان نے کہا کہ اپنی لونڈی کے بستر پر جو اس نے اپنے لئے بچا رکھا ہے بیٹھو، پھروہ ان کو بتانے لگے کہنے لگے: میرے اور حذیفہ کے درمیان جو ناچاقی کی وجہ بنی وہ یہ تھی کہ حذیفہ کچھ حدیثیں بیان کرتے تھے اور وہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں لوگوں سے کہتے تھے تو لوگ میرے پاس ان باتوں کے متعلق پوچھنے آتے کہ یہ کہنی جائز ہیں کہ نہیں۔ (حذیفہ کہتے تھے کہ یہ حدیثیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیں ہیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں جب کہ سلمان کا خیال تھا کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غصے میں کہا ہے اس لیے ہم نہیں کہہ سکتے۔) میں کہتا: حذیفہ خوب جانتا ہے جو وہ کہتا ہے اسی کو پتا ہے، اور میں ناپسند کرتا تھا کہ لوگوں کے درمیان عداوتیں بڑھ جائیں۔ کچھ لوگ حذیفہ کے پاس گئے ان سے کہا گیا: سلمان نہ تو تیری تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تیری تکذیب کرتا ہے جو تو کہتا ہے، تو حذیفہ میرے پاس آئے (یعنی حذیفہ کا تقاضایہ تھا کہ سلمان میری تصدیق کرتا)۔ تو کہا: اے سلمان ام سلمان کے بیٹے! (یعنی سخت الفاظ کہے تو سلمان کہتے ہیں کہ مجھے بھی غصہ آ گیا) تو میں نے کہا: اے حذیفہ ام حذیفہ کے بیٹے! تم باز آ جاؤ ورنہ میں تیرے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ دوں گا، جب میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کو دھمکایا اس نے مجھے چھوڑ دیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آدم کی اولاد میں سے ہوں، جس بندے کو میں نے ناجائز لعنت کی ہو یا اسے برا بھلا کہا: ہو۔ یا اللہ، اس کو اس پر رحمت بنا دے۔ پھر باتیں کرنے لگے۔ کہا کہ حذیفہ وہ باتیں بیان کیا کرتے تھے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں پر غصے کی حالت میں فرمائیں تھیں، یہ باتیں میرے پاس لائی گئیں اور مجھ سے سوال کیا گیا تو میں نے کہہ دیا کہ حذیفہ جو بیان کرتے ہیں اسے وہی جانتے ہیں میں اسے ناپسند کرتا تھا کہ لوگوں میں کینہ پھیلے، حذیفہ سے لوگوں نے جا کر کہا کہ سلمان نہ تمہاری تصدیق کرتے ہیں نہ تکذیب۔ اس کے بعد حذیفہ میرے پاس اے اور کہا: اے سلمان بن ام سلمان! میں نے بھی کہا: اے حذیفہ بن ام حذیفہ! یا تو اس حرکت سے بعض آ جاؤ ورنہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجوں گاجب میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ڈرایا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اولاد آدم میں سے جس کسی شخص پر میں لعنت کروں یا اس کی ناپسندیدگی کے باوجود برا بھلا کہوں تو میں اس پر رحمت کر رہا ہوں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 174]
تخریج الحدیث: (حسن)