صحيح الادب المفرد
حصہ اول: احادیث 1 سے 249
39. باب الولد قرة العين
حدیث نمبر: 64
64/87 عن جبير بن نفير قال: جلسنا إلى المقداد بن الأسود يوماً، فمر به رجل، فقال: طوبى لهاتين العينين اللتين رأتا رسول الله صلى الله عليه وسلم، والله! لوددنا أنا رأينا ما رأيت، وشهدنا ما شهدت، فاستغضب، فجعلت أعجب، ما قال إلا خيراً! ثم أقبل عليه فقال:"ما يحمل الرجل على أن يتمنى محضراً غيبه الله عنه؟ لا يدرى لو شهده كيف يكون فيه؟ والله! لقد حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم أقوام كبهم الله على مناخرهم في جهنم؛ لم يجيبوه ولم يصدقوه! أولا تحمدون الله عز وجل إذ أخرجكم لا تعرفون إلا ربكم، فتصدقون بما جاء به نبيكم صلى الله عليه وسلم، قد كفيتم البلاء بغيركم. والله لقد بعث النبي صلى الله عليه وسلم على أشد حال بعث عليها نبي قط، في فترة وجاهلية، ما يرون أن دينا أفضل من عبادة الأوثان! فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل، وفرق به بين الوالد وولده، حتى إن كان الرجل ليرى والده أو ولده أو أخاه كافراً، وقد فتح الله قفل قلبه بالإيمان ويعلم أنه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه، وهو يعلم أن حبيبه في النار، وأنها للتي قال: الله عز وجل: {والذين يقولون ربنا هب لنا من أزواجنا وذرياتنا قرة أعين} [الفرقان: 74].
جبیر بن نفیر سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن ہم مقداد بن اسود کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ایک شخص ان کے پاس سے گزرا اور اس نے کہا: کیا خوش قسمت اور مبارک ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم ہمارا دل چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی وہ دیکھتے جو آپ نے دیکھا اور ان (معرکوں) میں شریک ہوتے جن میں آپ شریک ہوئے ہیں۔ اس پر سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ غضبناک ہوئے۔ تو مجھے تعجب ہوا کہ اس نے تو اچھی بات ہی کہی ہے (یہ غصے کیوں ہو رہے ہیں)۔ اس کے بعد مقداد رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا: آدمی ایسی چیزوں کی تمنا کیوں کرتا ہے کہ جن چیزوں سے اللہ نے اس کو غائب رکھا۔ اسے نہیں معلوم کہ اگر وہ وہاں ہوتا تو ا س کا کیا کردار ہوتا؟ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے لوگوں نے بھی دیکھا جنہیں اللہ نے منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی، ان کی تصدیق نہیں کی۔ کیا تم اللہ عزوجل کی اس بات پر حمد نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں دنیا میں پیدا کیا تو تم اپنے رب کے سوا کسی کو جانتے ہی نہ تھے۔ اور تم اس شریعت کی تصدیق کرتے ہو جو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔ (اچھا ہوا) تم ان آزمائشوں سے بچ گئے ہو جن سے صحابہ گزرے۔ اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی سخت حالات میں جاہلیت کے زمانے میں اور نبوت کے وقفے کے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے۔ کوئی نبی اتنے سخت حالات میں مبعوث نہیں کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں ان لوگوں کے نزدیک کوئی دین بت پرستی سے زیادہ بہتر نہیں تھا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کلام کو لے آئے جو فرقان تھا جس نے حق و باطل میں فرق کیا۔ اور اس کے ذریعے سے باپ اور بیٹے کے درمیان فرق ڈال دیا (کہ ایک کافر ہوتا اور ایک مسلمان)۔ یہاں تک کہ اگر ایک آدمی اپنے باپ کو، اپنے بیٹے کو اور اپنے بھائی کو حالت کفر میں دیکھتا تھا۔ اور اللہ نے اس کے اپنے دل کا قفل ایمان کی چابی سے کھول دیا تھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ میرا باپ، بھائی، بیٹا جو کافر تھا اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گا تو اس کی آنکھ ٹھنڈی نہیں ہو تی تھی اور وہ جانتا تھا کہ اس کا عزیز جہنم میں گیا۔ اور یہ آنکھوں کی ٹھنڈک تو اسی چیز سے ہوتی ہے جس کے متعلق اللہ عزوجل نے فرمایا: ‏ «‏وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ» اور وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ (مطلب یہ کہ وہ شریعت پر عمل کریں کیونکہ مومن کی آنکھ، اولاد اور بیوی سے تب ہی ٹھنڈی ہو گی جب وہ اللہ کے عبادت گزار ہوں۔) [صحيح الادب المفرد/حدیث: 64]
تخریج الحدیث: (صحيح)