سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کی دعائیں ہیں جن کو قبول کر لیا جاتا ہے جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور والد کی اپنے بیٹے کے خلاف دعا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 24]
سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی بچے نے گود میں بات نہیں کی سوائے عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جریج والے بچے کے۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا نبی اﷲ! جریج والا بچہ کون ہے؟ فرمایا:”جریج ایک عبادت گزار اور راہب آدمی تھا اور اپنے عبادت خانے میں تھا۔ ایک گائیوں کا چرواہا اس کے عبادت خانے کے نیچے رات کو رہتا تھا۔ اس گاؤں کے باشندوں میں سے ایک عورت اس چرواہے کے پاس آتی اور جاتی تھی۔ ایک دن جریج کی ماں اس کے پاس آئی اور کہا: اے جریج! اور وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ جریج نے دل میں سوچا جب کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ میری ماں بلا رہی ہے اور میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس نے دل میں یہی سوچا کہ نماز کو ترجیح دے۔ پھر اس نے دوبارہ چلا کر پکارا۔ اس نے دل میں کہا: میری ماں مجھے بلا رہی ہے اور میں نماز پڑھ رہا ہوں تو اس نے یہی سوچا کہ اپنی نماز کو ترجیح دے۔ پھر تیسری دفعہ وہ چلائی۔ اس نے پھر سوچا میری ماں مجھے بلا رہی ہے اور یہ کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس نے یہی سوچا کہ اپنی نماز کو ترجیح دے۔ جب جریج نے ماں کو جواب نہیں دیا تو اس نے کہا: اے جریج! اللہ تجھے موت نہ دے جب تک تو بدکار عورتوں کا سامنا نہ کر لے۔ پھر وہ چلی گئی۔ بادشاہ کے پاس اس(گاؤں والی) عورت کو لایا گیا اور اس نے بچے کو جنم دے دیا تھا۔ بادشاہ نے پوچھا: یہ لڑکا کس کا ہے۔ اس نے کہہ دیا کہ جریج کا۔ بادشاہ نے کہا: وہی جو عبادت خانے میں رہتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ جریج کے عبادت خانے کو ڈھا دو اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ لوگوں نے کسیوں سے اس کے عبادت خانے پر حملہ کر دیا یہاں تک کہ وہ گر گیا۔ انہوں نے رسیوں کے ساتھ اس کے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ ملا کر جکڑ دیا۔ پھر اس کو لے جایا گیا۔ تو اس کو بدکار عورتوں کے پاس سے گزارا گیا، تو اس نے ان کو دیکھا تو مسکرا دیا اور وہ اس کو لوگوں میں دیکھ رہی تھیں۔ تو بادشاہ نے (جریج سے) کہا: (تمہیں پتا ہے)یہ عورت کیا کہہ رہی ہے! اس نے کہا: کیا کہہ رہی ہے؟ اس نے کہا: وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا یہ بچہ تیرے سے ہے۔ تو اس نے ایک عورت سے کہا: تم یہ کہہ رہی ہو۔ اس نے کہا: ہاں۔ جریج نے کہا: وہ چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اس کی گود میں ہے۔ تو وہ اس طرف متوجہ ہوا اور بچہ سے پوچھا: تیرا باپ کون ہے؟ بچہ بولا: گائیوں کا چرواہا۔ بادشاہ نے کہا: کیا میں آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنوا دوں۔ جریج نے کہا: نہیں۔ کہا: کیاچاندی کا بنوا دوں؟ کہا: نہیں۔ کہا: ہم اس کو کس کا بنا دیں؟ کہا: ویسا ہی تعمیر کروا دو جیسا تھا۔ بادشاہ نے کہا: کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے تو مسکرایا تھا؟ جریج نے کہا: یہ ایک بات تھی جسے میں جانتا تھا۔ میری ماں کی بددعا مجھے لگ گئی تھی۔ پھر اس نے لوگوں کو پورا قصہ سنایا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 25]