طیسلہ بن میاس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں نجدہ بن عامر خارجی کے پیروکار کے ساتھ تھا، (یہ خارجیوں کی ایک جماعت ہے) میں نے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا جن کو میں کبائر ہی خیال کرتا ہوں، تو میں نے اس کا تذکرہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے پوچھا: وہ کون کون سے گناہ ہیں؟ میں نے کہا: ایسے ایسے، انہوں نے کہا: یہ کبائر نہیں ہیں۔ وہ تو نو ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، جنگ سے فرار ہونا، پاکدامن عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، مسجد میں کفر (بےدینی) کا ارتکاب کرنا، وہ آدمی جو (دین کا) مذاق اڑاتا ہے، والدین کا (بیٹے کی) نافرمانی کی وجہ سے رونا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا: کیا تم جہنم سے ڈرتے ہو اور چاہتے ہو جنت میں داخل ہو جاؤ؟ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم۔ پوچھا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ میں نے کہا: میرے پاس میری والدہ ہیں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ بولے: اور اس کو کھانا کھلائے تو تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے جب تک کبیرہ گناہوں سے بچو گے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 6]
عروہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: «وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ»”رحمت سے اپنے عاجزی کے بازو ان کے سامنے جھکا دو۔“ اور کہا: ایسی چیز سے انکار نہ کرنا جس کو تیرے والدین پسند کریں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 7]