الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
21. باب مَنْ قَالَ الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ:
21. کفن کا خرچ تمام مال میں سے ہو گا
حدیث نمبر: 3269
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: کفن (کا خرچ مرنے والے کے) تمام مال میں سے ہو گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3269]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3280] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1920، 1928، 1931] ، [عبدالرزاق 6223]

حدیث نمبر: 3270
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُعَاذٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْحَسَنِ:"فِي رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ قِيمَةَ أَلْفَيْ دِرْهَمٍ، وَعَلَيْهِ مِثْلُهَا أَوْ أَكْثَرُ، قَالَ: يُكَفَّنُ مِنْهَا، وَلَا يُعْطَى دَيْنُهُ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی فوت ہو گیا اور دو ہزار درہم چھوڑ گیا، اور اس پر اتنا ہی یا اس سے زیادہ قرض ہو، انہوں نے کہا: اس سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا، اور قرض ادا نہ کیا جائے گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3270]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3281] »
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور نے روایت نہیں کیا۔ اسی کے مثل [ابن أبى شيبه 1922] میں ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 3268 سے 3270)
میت پر اگر قرض ہے تو سب سے پہلے قرض ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر اتنا مال نہ ہو کہ قرض ادا کیا جا سکے تو سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا ہی انتظام کیا جائے گا، جیسا کہ حسن رحمہ اللہ نے فرمایا۔

حدیث نمبر: 3271
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَمَّنْ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "يُبْدَأُ بِالْكَفَنِ، ثُمَّ الدَّيْنِ، ثُمَّ الْوَصِيَّةِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ایسی صورت میں ابتداء کفن سے ہو گی، پھر (جو بچے اس سے) قرض ادا کیا جائے، اور اس کے بعد وصیت نافذ کی جائے۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3271]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 3282] »
اس اثر کی سند میں راوی مجہول ہے، لیکن [عبدالرزاق 6224] نے بسند صحیح روایت کیا ہے۔ نیز امام بخاری نے اس روایت کو تعلیقاً ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 140/3-141]

حدیث نمبر: 3272
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أنبأنا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ:"فِي الْمَرْأَةِ تَمُوتُ، قَالَ: "تُكَفَّنُ مِنْ مَالِهَا، لَيْسَ عَلَى الزَّوْجِ شَيْءٌ".
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: جو عورت فوت ہو جائے تو اس کے مال سے ہی اس کی تکفین ہوگی، شوہر پر اس کا بار نہ ہو گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3272]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3283] »
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1930] ۔ یہ اس صورت میں ہے جب بیوی نے اپنا نجی مال چھوڑا ہو۔

حدیث نمبر: 3273
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: "الْحَنُوطُ، وَالْكَفَنُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ".
عطاء نے کہا: حنوط اور کفن میت کے اصل مال سے ہو گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3273]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ابن جريج قد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 3284] »
اس اثر کی سند ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [مصنف عبدالرزاق 6222] میں صحیح سند سے مروی ہے، چنانچہ امام بخاری نے کتاب الجنائز میں اسی طرح باب باندھا: «باب: الكفن من جميع المال وبه قال عطاء» ۔

حدیث نمبر: 3274
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "الْكَفَنُ مِنْ وَسَطِ الْمَالِ، يكفن على قدر ما كان يلبس في حياته، ثم يخرج الدين، ثم الثلث".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کفن (میت کے) مال سے ہی دیا جائے گا، اور جس طرح اپنی زندگی میں پہنتا تھا ویسا ہی کفن ہو گا، پھر قرض نکالا جائے گا، اور اس کے بعد تہائی مال کی وصیت نافذ کی جائے گی۔ [سنن دارمي/من كتاب الوصايا/حدیث: 3274]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي، [مكتبه الشامله نمبر: 3285] »
اس اثر کی سند اسماعیل بن مسلم مکی کی وجہ سے ضعیف ہے، کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی لیکن اسی طرح کا قول (3271) میں گذر چکا ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 3270 سے 3274)
میت کے ترکے کی اس ترتیب سے تقسیم ہوگی: پہلے کفن دفن کا انتظام، پھر جو بچے اس میں سے قرض ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر کوئی وصیت ہے وہ جاری کی جائے گی، پھر ورثاء میں مال تقسیم کیا جائے گا۔
والله اعلم۔