سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا تھا، لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کے لئے اس کو فتح کرادیا۔ دیکھو! یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا تھا (یعنی مکہ میں لڑائی کرنا) اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ سنو! اس وقت سے پھر مکہ (میں لڑائی) حرام ہے، نہ یہاں کے کانٹے کاٹے جائیں، نہ درخت کاٹے جائیں، نہ یہاں کی کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے سوائے اس شخص کے جو اس کا اعلان کرے، یعنی جس کا ارادہ اس چیز کو اس کے مالک تک پہنچانے کا ہو، صرف وہی گری پڑی چیز اٹھا سکتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2636]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2642] » يہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 112، 2434] ، [مسلم 1355] ، [أبوداؤد 2017] ، [ترمذي 1405] ، [أبويعلی 5954] ، [ابن حبان 3715]
وضاحت: (تشریح حدیث 2635) اس حدیث میں ہاتھیوں سے مراد یمن کے حکمران ابرہہ کا لشکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال ہاتھی لیکر کعبہ کو ڈھانے آئے تھے لیکن الله تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعہ انہیں ہلاک کردیا۔ پورا قصہ سورہ الفیل کی تفسیر میں دیکھئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مکہ میں قتل و غارتگری منع ہے، حتیٰ کہ وہاں کا کانٹا اور خودرو پیڑ پودے بھی نہیں کاٹے جاسکتے ہیں۔ ہاں جو گھاس اور پیڑ پودے انسان کے لگائے ہوئے ہوں انہیں کاٹنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح وہاں حاجی (اور غیر حاجی) کسی کی بھی گری پڑی چیز اٹھانا بھی حرام ہے، حتیٰ کہ چپل وغیرہ بھی نہیں، ہاں اٹھا کر پولیس یا «مكتب خاص بالمفقودات» کے حوالے کرنا درست ہے۔ بعض لوگ گری پڑی چیز کیا حجاج کرام کے سامان کی چوری کر لیتے ہیں، یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کی بڑی کڑی سزا ہے۔ الله تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دے، اور مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی توفیق بخشے، آمین۔