سفیان بن عبداللہ الثقفی کے بیٹے عمرو اور عاصم سے مروی ہے کہ ان کے والد سفيان بن عبداللہ کو چمڑے کی ایک تھیلی ملی، وہ اسے لے کر امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: ایک سال تک اس کا اعلان کرو اور پہچان لی جائے تو ٹھیک ہے (یعنی اس کا مالک اسے پہچان لے تو اسے دے دو)، نہ پہچانی جائے تو یہ تمہارے لئے ہے۔ اگلے سال اس کو لے کر پھر سفیان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اس کا تذکرہ کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تمہاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گری پڑی چیز کے بارے میں یہی حکم دیا ہے۔ سفیان نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے لے کر بیت المال میں داخل کرا دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2635]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد وأبو أسامة هو: حماد بن أسامة، [مكتبه الشامله نمبر: 2641] » اس روایت کی سند جید ہے۔ ابواسامہ کا نام حماد بن اسامہ ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 137/4] ، [نسائي فى الكبرىٰ 5818] ، [مشكل الآثار 4698] ، [بيهقي 187/6] ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جس حدیث کا حوالہ دیا اس کے لئے دیکھئے: [بخاري 2437]
وضاحت: (تشریح حدیث 2634) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز ایک سال تک رکھی جائے، اور جہاں ملی ہے وہیں ایک سال تک اعلان کیا جائے۔ اس کا مالک آجائے تو اس کو دیدی جائے، ایک سال کے بعد پانے والا تصرف کر سکتا ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ روپے پیسے وغیرہ ہوں تو اس کو استعمال کرے اور جب بھی اس کا مالک آجائے وہ قیمت اسے ادا کر دے، جیسا کہ بخاری شریف میں وضاحت ہے۔ دیکھئے: [بخاري: 2427] ۔