عکرمہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا مستحاضہ سے اس کے شوہر کے جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 840]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 844] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے [مصنف عبدالرزاق 1188، 1189]
سالم الافطس نے کہا: سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا مستحاضہ سے جماع کیا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نماز جماع سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 841]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 845] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1187] و [مصنف ابن أبى شيبه 279/4]
عبداللہ بن مسلمہ سے مروی ہے، سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: اس کا شوہر اس سے جماع کر سکتا ہے، چاہے خون چٹائی پر ہی کیوں نہ آ جائے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 844]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 848] » اس قول کی نسبت صحیح نہیں۔ دیکھئے رقم (841، 846)۔
حمید سے مروی ہے، بکر بن عبداللہ سے کہا گیا کہ حجاج بن یوسف کہتے ہیں کہ مستحاضہ عورت سے اس کا شوہر جماع نہیں کر سکتا ہے، بکر بن عبدالله المزنی نے فرمایا: نماز اس سے زیادہ حرمت والی ہے، شوہر جماع کر سکتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 845]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 849] » اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ نسبت صحیح نہیں لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 279/4]
عطاء نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے، وہ ایام حیض میں نماز ترک کر دے گی، جب نماز اس کے لئے جائز ہو گی، جماع بھی جائز ہو گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 847]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 851] » اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 279/4] و رقم (836)۔ لیکن معنی صحیح ہے۔
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مستحاضہ سے اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 848]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف محمد بن سالم هو: الهمداني وهو ضعيف وعمر بن زرعة الخارفي قال البخاري في الكبير 157/ 6: " فيه نظر "، [مكتبه الشامله نمبر: 852] » اس روایت کی سند بھی نسبت کے لحاظ سے ضعیف ہے، لیکن مطلب صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 279/4]
قتادہ سے مروی ہے: سعید بن المسيب، حسن و عطاء نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: غسل کر کے نماز پڑھے گی، رمضان کے روزے رکھے گی، اور اس کا شوہر اس سے جماع کر سکتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطهارة/حدیث: 849]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 853] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 279/4] ۔ نیز دیکھئے رقم (835)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 831 سے 849) ان تمام آثار سے معلوم ہوا کہ مستحاضہ مدتِ حیض گذر جانے کے بعد غسل کر کے نماز بھی پڑھے گی، روزے بھی رکھے گی اور اس کا شوہر اس سے جماع بھی کر سکتا ہے۔ یہی راجح مسلک ہے۔