حضرت طارق بن شہاب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اطلاع دینے والے نے آ کر کہا کہ نماز کھڑی ہوگئی ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھے اور ہم بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا مسجد کے اگلے حصے میں لوگ رکوع میں تھے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور ہم بھی آگے بڑھے اور ایسے ہی کیا۔ پھر (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) ایک شخص جلدی سے گزرا اور کہا: السلام علیکم اے ابوعبدالرحمٰن۔ انہوں نے فرمایا: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے صحیح صحیح پہنچا دیا۔ پھر ہم نماز سے فارغ ہو کر واپس آگئے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے گھر چلے گئے۔ ہم اپنی جگہ بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ وہ باہر آجائیں۔ ہم نے ایک دوسرے سے کہا کہ کون ان سے سوال کرے گا (کہ انہوں نے سلام کا جواب دینے کے بجائے یہ کیوں کہا کہ اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسول نے پہنچا دیا)، طارق نے کہا: میں سوال کروں گا، چنانچہ انہوں نے سوال کیا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے قریب سلام خاص لوگوں کو کہا جائے گا، تجارت عام ہو جائے گی حتی کہ بیوی تجارت کے معاملات میں خاوند کی معاونت کرے گی، قطع رحمی کی جائے گی، علم پھیل جائے گا، جھوٹی گواہی عام ہوگی، اور سچی گواہی کو چھپایا جائے گا۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1049]
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بہترین اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کھانا کھلاؤ، اور ہر جان پہچان والے اور اجنبی کو سلام کہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1050]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الإيمان، حديث: 12»