سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جن میں ایک شخص خلوق (زعفرانی رنگ کی خوشبو) لگائے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور سلام کہا اور اس شخص سے منہ پھیر لیا۔ اس آدمی نے عرض کیا: آپ نے مجھ سے منہ پھیر لیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی آنکھوں کے درمیان آگ کا انگارہ ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1020]
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اس شخص نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح ناگواری دیکھی تو چلا گیا اور سونے کی انگوٹی اتار کر لوہے کی انگوٹھی بنوا کر پہن لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ جہنمیوں کا زیور ہے۔“ وہ گیا اور اس کو پھینک کر چاندی کی انگوٹھی پہن لی۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1021]
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بحرین سے ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہ دیا۔ کیونکہ اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی، اور اس نے ریشمی جبہ بھی پہن رکھا تھا۔ وہ آدمی غمزدہ ہو کر چلا گیا اور اپنی بیوی کو جا کر بتایا تو اس نے کہا: شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے جبے اور انگوٹھی کی وجہ سے ناراض ہوئے ہوں، لہٰذا انہیں اتار کر پھر جاؤ۔ اس نے ایسے ہی کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ اس نے عرض کیا: میں ابھی ابھی آیا تھا تو آپ نے مجھ سے منہ پھیر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے ہاتھ میں آگ کا انگارہ تھا۔“ اس نے کہا: تب تو میں بہت سارے انگارے لایا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم لائے ہو (یہاں) اس کی کسی کے نزدیک پتھریلی زمین کے پتھروں سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ لیکن یہ دنیاوی زندگی کا سامان ہے۔“ اس نے عرض کیا: تب میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاندی، پیتل یا لوہے کی انگوٹھی پہن لے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1022]