1. ذمی کافروں سے جزیہ لینا اور حربی کافروں سے (کسی مصلحت سے) کچھ تعرض نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 1337
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی وفات سے ایک سال قبل اہل بصریٰ کی طرف ایک خط لکھا کہ اگر کسی مجوسی (پارسی) نے اپنی محرم عورت کو اپنی بیوی بنایا ہو تو ان دونوں کو جدا کر دو اور امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا یہاں تک کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس امر کی شہادت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مقام) ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1337]
حدیث نمبر: 1338
سیدنا عمرو بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن لؤی کے حلیف تھے اور بدر میں شریک ہو چکے تھے، نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ چنانچہ وہ (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) بحرین کا مال لے آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پڑھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر لوٹے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ (رضی اللہ عنہ) کچھ مال لائے ہیں۔“ انھوں نے کہا ”جی ہاں یا رسول اللہ!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خوش رہو اور خوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم محتاج ہو جاؤ گے بلکہ تم پر اس بات کا خوف رکھتا ہوں کہ دنیا تمہارے لیے کشادہ کر دی جائے گی (یعنی لگژری سہولتوں کی فراوانی ہو گی)، جس طرح پہلے لوگوں کے لیے کشادہ کر دی گئی تھی پھر تم اس میں حسد و بغض کرنے لگو، نااتفاقی سے جھگڑا کرنے لگو، جس طرح انھوں نے کیا تھا اور وہ (جھگڑا) تم کو بھی ہلاک کر دے جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1338]
حدیث نمبر: 1339
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کو بھیجا تاکہ وہ مشرکوں سے لڑیں۔ چنانچہ (مدائن کا حاکم) ہرمزان مسلمان ہو گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ میں تیری رائے لینا چاہتا ہوں کہ پہلے ان (تین) مقاموں (فارس، اصفہان اور آذربئیجان) میں سے کہاں سے لڑائی شروع کی جائے۔ ہرمزان نے کہا کہ ہاں اس کی مثال اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مثال جو یہاں رہتے ہیں، مثل اس پرندے کی ہے جس کا ایک سر، دو بازو اور اس کے دو پاؤں ہوں کہ اگر ایک بازو توڑ دیا جائے تو اس کے دونوں پاؤں ایک بازو سے اور سر سے کھڑے ہو جائیں گے اور اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کھڑا ہو جائے گا اور اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں بھی بیکار ہو جائیں گے اور دونوں بازو بھی اور سر بھی پس سر تو کسریٰ (شاہ ایران) ہے اور ایک بازو قیصر (شاہ روم) ہے اور دوسرا بازو فارس ہے۔ لہٰذا آپ مسلمانوں کو حکم دیجئیے کہ کسریٰ پر حملہ کریں۔ پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں بلایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہم پر سردار مقرر کیا، یہاں تک کہ جب ہم دشمن کے ملک میں پہنچے اور کسریٰ کا عامل چالیس ہزار فوج لے کر ہمارے سامنے آیا۔ اس کا ایک ترجمان کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ تم میں سے ایک آدمی مجھ سے گفتگو کرے۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جو تیرا جی چاہے پوچھ۔ اس نے کہا تم کون لوگ ہو؟ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں؟ ہم سخت بدبختی اور سخت مصیبت میں تھے، مارے بھوک کے چمڑے اور کھجور کی گٹھلیوں کو چوسا کرتے تھے اور ہم چمڑے اور بال کی پوشاک پہنتے تھے اور درختوں اور پتھروں کی پرستش کیا کرتے تھے، پس ہم اسی حال میں، اسی طرح تھے کہ اچانک آسمانوں کے مالک اور زمینوں کے مالک نے ہماری طرف ایک نبی ہماری قوم میں سے بھیجا، جن کے باپ کو اور جن کی ماں کو ہم جانتے تھے۔ پس ہمارے نبی، ہمارے رب کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے لڑیں، یہاں تک کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو یا جزیہ دو اور ہمارے نبی نے ہمارے پروردگار کا یہ پیغام پہنچایا کہ جو شخص ہم میں مقتول ہو گا وہ جنت میں ایسے آرام میں جائے گا کہ اس کا مثل کبھی دیکھا نہیں گیا اور جو شخص ہم میں سے باقی رہے گا وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہو جائے گا۔ (سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کر کے سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لڑائی شروع کرو) تو سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم تو اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوئے اور تمہیں کچھ ندامت و ذلت نہیں ہوئی (یعنی شکست نہیں ہوئی اس کے باوجود کے آپ کو جنگ کا قاعدہ معلوم نہیں؟) مگر میں اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک جنگ ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں اول وقت جنگ شروع نہ کرتے تو انتظار فرماتے، یہاں تک کہ ہوائیں چلنے لگتیں اور نماز کا وقت آ جاتا، اس وقت جنگ کرتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1339]