1. ذمی کافروں سے جزیہ لینا اور حربی کافروں سے (کسی مصلحت سے) کچھ تعرض نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 1338
سیدنا عمرو بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن لؤی کے حلیف تھے اور بدر میں شریک ہو چکے تھے، نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کا جزیہ لے آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ چنانچہ وہ (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) بحرین کا مال لے آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو انھوں نے صبح کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پڑھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر لوٹے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں کہ تم نے سنا ہے کہ ابوعبیدہ (رضی اللہ عنہ) کچھ مال لائے ہیں۔“ انھوں نے کہا ”جی ہاں یا رسول اللہ!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خوش رہو اور خوشی کی امید رکھو، اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم محتاج ہو جاؤ گے بلکہ تم پر اس بات کا خوف رکھتا ہوں کہ دنیا تمہارے لیے کشادہ کر دی جائے گی (یعنی لگژری سہولتوں کی فراوانی ہو گی)، جس طرح پہلے لوگوں کے لیے کشادہ کر دی گئی تھی پھر تم اس میں حسد و بغض کرنے لگو، نااتفاقی سے جھگڑا کرنے لگو، جس طرح انھوں نے کیا تھا اور وہ (جھگڑا) تم کو بھی ہلاک کر دے جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1338]