1397. جہاد کا آغاز کرنے کا بہترین وقت اور واقعہ نہاوند، فاروقی سپاہ سر زمین ایران میں
حدیث نمبر: 2137
-" كان إذا غزا فلم يقاتل أول النهار لم يعجل حتى تحضر الصلوات وتهب الأرواح ويطيب القتال".
جبیر بن حیہ کہتے ہیں: مجھے میرے باپ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہرمزان سے کہا: تم تو مجھ سے بچ گئے ہو، اب ہماری خیرخواہی تو کرو۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے اسے امان دیتے ہوئے کہا: کوئی حرج نہیں، تم بات کر سکتے ہو۔ سو ہرمزان نے کہا: جی ہاں، آج فارس کا ایک سر ہے اور دو بازو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: سر کہاں ہے؟ ہرمزان: نہاوند، جو بندار کے ساتھ ہے، اس کے ساتھ کسری کے کمانڈر اور اہل اصفہان بھی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: دو بازوں کہاں ہیں؟ ہرمزان: راوی کہتا ہے کہ اس نے جو جگہ ذکر کی تھی، وہ اسے بھول گئی ہے، پھر ہرمزان نے کہا: بازؤوں کو کاٹ دو، تاکہ سر کمزور ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: اللہ کے دشمن! تو جھوٹ بول رہا ہے، ہم پہلے سر پر چڑھائی کریں گے، اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ملیا میٹ کر دے گا، اگر ایسے ہو گیا تو بازو خود بخود دم توڑ جائیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ جنگ میں بنفس نفیس شرکت کریں۔ لیکن لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ خود عجموں کی طرف نہ جائیں، اگر آپ شہید ہو گئے تو مسلمانوں کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، آپ مجاہدین کے لشکروں کو بھیج دیں۔ (آپ نے اسی رائے پر عمل کیا اور) اور اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر، مہاجرین اور انصار سمیت اہل مدینہ کو اہل فارس سے لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ ادھر سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اہل بصرہ کو لے کر اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اہل کوفہ کو لے کر نہاوند جمع ہو جائیں۔ جب تم سارے جمع ہو جاؤ تو تمہارے امیر سیدنا نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ جب یہ لشکر نہاوند میں جمع ہوئے تو (عامل کسری) بندار، جو کہ آتش پرست تھا، نے ان کی طرف پیغام بھیجا: عربوں کی جماعت! اپنا قاصد بھیجو تاکہ بات کی جا سکے۔ لوگوں نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ جبیر بن حیہ کہتے ہیں: گویا میں اب بھی مغیرہ کو دیکھ رہا ہوں، وہ ایک دراز قد آدمی تھے، ان کے لمبے لمبے بال تھے اور وہ کانے بھی تھے۔ پس وہ چلے گئے اور جب (گفت و شنید کر کے) واپس آئے تو ہم نے پوچھا: (کہ کیا کر کے آئے ہو)۔ انہوں نے کہا: آتش پرست نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پوچھا: اس عربی کے لیے ہم کیسا ماحول بنائیں؟ کیا حسن و جمال، خوشی و شادمانی اور ملوکیت و بادشاہت والا یا پھر جان بوجھ کر تنگ حالی ظاہر کریں اور دنیوی (آرائشوں اور سہولتوں) سے ذرا دور ہو جائیں؟ انہوں نے کہا: بلکہ ہمیں چاہیے کہ اپنے حسن اور تعداد کی اعلیٰ صورت اختیار کریں۔ (بہرحال میں وہاں پہنچ گیا) کیا دیکھتا ہوں کہ لڑنے کے آلے اور ڈھالیں، بس آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، میں نے دیکھا کہ وہ بندار کے پاس کھڑے تھے، جبکہ وہ سونے کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سر پر تاج تھا۔ میں سیدھا آگے نکل گیا اور اس کے ساتھ تخت پر بیٹھنے کے لیے سر جھکایا (جیسے عام بندہ بیٹھنے کی تیاری کرتا ہے)، لیکن مجھے دھکیلا گیا اور میری زجر و توبیخ کی گئی۔ میں نے کہا: کہ قاصدوں سے ایسی (بدسلوکی) نہیں کرتے۔ جبکہ انہوں نے مجھے کہا: تو کتا ہے، کیا تو بادشاہ کے ساتھ بیٹھتا ہے؟ میں نے کہا: جتنا تم میں اس کا مقام ہے، میری قوم میں اس سے زیادہ میرا مقام ہے۔ پھر بھی اس نے مجھے ڈانٹا اور کہا: بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ (پہلے بادشاہ نے کچھ کہا: اور) میرے سامنے اس کی بات کا یوں ترجمہ پیش کیا گیا: او عربوں کی جماعت! تم سب سے زیادہ بھوکے تھے، سب سے بڑے بدبخت تھے، سب سے زیادہ گندے تھے، (ترقی یافتہ سلطنتوں سے) بلکہ ہر خیر سے بہت دور تھے، میں نے تمہیں تیروں میں پرونے والے اپنے کمانڈروں کو حکم دے دینا تھا، لیکن تمہاری گندی اور پلید لاشوں کی وجہ سے ایسے نہیں کیا، اب اگر تم واپس چلے گئے تو ٹھیک اور اگر ایسا کرنے سے انکار کیا تو ہم تمہیں تمہاری قتل گاہوں میں ٹھہرا دیں گے۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: بخدا! تو نے ہمارے صفات بیان کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی، ہم (ترقی یافتہ سلطنتوں) سے دور تھے، بھوکے تھے، بدبخت تھے اور ہر بھلائی سے محروم تھے۔ (لیکن ایک ایسا وقت آیا کہ) اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول مبعوث کر دیا، اس نے ہمیں دنیا میں تائید و نصرت اور آخرت میں جنت و بہشت کی خوشخبریاں دیں، اس رسول کی آمد سے لے کر یہاں تمہارے پاس پہنچنے تک ہم اپنے رب سے کامیابی اور مدد وصول کرتے رہے، ٹھیک ہے، تمہارے پاس ایسی بادشاہت اور زندگی ہے، (لیکن یہ ہمارے نزدیک بدبختی ہے) اور ہم اس شقادت کی طرف کبھی نہیں لوٹیں گے، جب تک تم پر غالب نہ آ جائیں یا پھر یہیں شہید نہ ہو جائیں۔ اس نے کہا: کانے نے اپنے دل کی بات بیان کر دی اور سچ کہا: ہے۔ اس کے بعد میں اس کے پاس سے کھڑا ہوا (اور واپس آ گیا)، اللہ کی قسم! میں نے اپنے انداز سے پارسی کو مرعوب کر دیا۔ اس نے ہماری طرف پیغام بھیجا کہ تم (دریا) عبور کر کے آؤ گے یا ہم؟ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: (میرے ساتھیو!) تم عبور کر کے جاؤ، پس ہم (دریا) عبور کر کے پہنچ گئے۔ میرے باپ (جبیر) نے کہا: میں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا، آتش پرست فارسیوں کا لشکر یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ لوہے کا پہاڑ ہے، انہوں نے عربوں کا مقابلہ کرنے سے فرار نہ ہونے کا عہد و پیمان کر رکھا تھا اور بعض (جنگجؤں) کو بعض کے ساتھ ملایا گیا تھا، حتی کہ ایک رسی میں سات افراد تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے نوک دار لوہا بچھا دیا اور کہنے لگے کہ جو بھی فرار اختیار کرے گا، نوک دار لوہا اسے زخمی کر دے گا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان کی کثرت کو دیکھ کر کہا: کہ (اس جنگ میں کافروں کی جتنی تعداد قتل ہو گی) اتنی تعداد میں نے کبھی نہیں دیکھی، بے شک ہمارا دشمن نیند یا سکون کو ترک کر چکا ہے، اس لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال اگر میں امیر ہوتا تو ان کے ساتھ تیزی کے ساتھ مقابلہ کرتا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے شخص تھے، انہوں نے مجھے کہا: اللہ تجھے اس قسم کے حالات میں حاضر کرے گا، (اس وقت دیکھ لینا کہ کیا کرنا ہے)۔ اب تیرا جو مقام ہے، اس پر تجھے پریشان ہونا چاہئیے نہ اسے معیوب سمجھنا چاہئیے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! مجھے ان کے ساتھ لڑائی کرنے میں عجلت سے مانع چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو دن کے شروع میں لڑائی نہ کرتے، بلکہ ٹھہرتے حتی کہ نماز کا وقت ہو جاتا (یعنی سورج ڈھل جاتا)، ہوائیں چلنا شروع ہو جاتیں اور لڑنا خوشگوار ہو جاتا۔ پھر سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس فتح میں اسلام اور اہل اسلام کی عزت اور کفر اور اہل کفر کی ذلت ہو، اس کے ذریعے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دینا اور اس کے بعد مجھے شہادت عطا کر دینا۔ پھر کہا: آمین کہو، پس ہم نے آمین کہی۔ پھر وہ رونے لگ گئے اور ہم بھی روئے۔ پھر سیدنا نعمان نے کہا: جب میں پہلی دفعہ جھنڈا ہلاؤں گا تو اپنا اسلحہ تھام لینا، جب دوسری دفعہ ہلاؤں تو دشمن سے لڑنے کے لئے تیار ہو جانا اور جب تیسری دفعہ ہلاؤں تو ہر کوئی اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ اپنے قریبی دشمن پر حملہ کر دے۔ جب (ظہر کی) نماز کا وقت ہوا اور ہوائیں چل پڑیں تو انہوں نے اللہ اکبر کہا:، ہم نے بھی اللہ اکبر کہا:۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ان شاء اللہ فتح کی ہوا چل پڑی ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی میری دعا قبول کر کے ہمیں فتح عطا کرے گا۔ پھر انہوں نے پہلی دفعہ جھنڈا ہلایا، پھر دوسری دفعہ ہلایا اور جب تیسری دفعہ اسے حرکت دی تو ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں شہید ہو جاؤں تو حذیفہ بن یمان امیر لشکر ہوں گے، اگر وہ بھی شہید ہو جایئں تو فلاں ہوں، ان کے بعد فلاں، حتیٰ، کے انہوں نے سات امیروں کا ذکر کیا، آخر میں سیدنا مغیرہ شعبہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا۔ میرے باپ (جبیر) نے کہا: اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق ہر مسلمان یہ چاہتا تھا کہ یا تو وہ شہید ہو جائے یا پھر فتح یاب، دشمن بھی ہمارے مقابلے میں ڈٹے رہے، ہمیں صرف لوہے کی لوہے پر پڑنے کی آواز آتی تھی، بالآخر ایسے ہوا کہ مسلمان کی بہت بڑی تعداد شہید ہو گئی، لیکن جب انہوں نے ہمارا صبر اور عزم دیکھا کہ ان لوگوں کا فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو وہ شکست کے لیے تیار ہو گئے، جب ایک مجاہد کسی ایک دشمن پر حملہ آور ہوتا تو وہ ایک رسی میں باندھے ہوئے ساتوں کے سات اس پر ٹوٹ پڑھتے، لیکن ہوتا یوں کہ سارے کے سارے قتل ہو جاتے پیچھے سے نوکیلا لوہا ان کو زخمی کرتا، سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جھنڈا آگے بڑھاؤ، پس ہم نے جھنڈا آگے بڑھانا اور ان کو قتل کرنا شروع کر دیا اور وہ شکست کھانا شروع ہو گئے۔ جب سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے اور فتح عطا کی ہے، اسی اثنا میں ایک تیر آیا اور ان کی کوکھ میں پیوست ہو گیا اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کے بھائی معقل بن مقرن نے ان کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اور جھنڈا خود تھام لیا اور آگے بڑھا اور کہا: اللہ تم پر رحم کرے، پیش قدمی جاری رکھو، سو ہم نے ایسا ہی کیا اور ان کو شکست دینا اور ان کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو لوگ جمع ہو کر پوچھنے لگے کہ امیر کہاں ہے؟ معقل نے کہا: یہ تمہارا امیر ہے، اللہ تعالی نے فتح عطا کر کے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کر کے ان کو شہادت سے ہمکنار کر دیا۔ لوگوں نے سیدنا حزیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ ادھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں دعا کرنے میں مگن اور حاملہ کے چیخنے کی طرح منتظر تھے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان کو فتح کا پیغام پہنچانے کے لیے خط لکھا اور ایک مسلمان کے ہاتھ بھیج دیا۔ جب وہ پہنچا تو یوں فتح کا پیغام سنایا: امیر المؤمنین! خوش ہو جائیے، فتح ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی ہے اور شرک اور مشرکوں کو ذلیل کر دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تجھے نعمان نے بھیجا ہے؟ اس نے کہا: امیر المؤمنین! نعمان کی وفات پر ثواب کی توقع کے ساتھ صبر کیجئیے۔ یہ سن کر آپ نے رونا اور اناللہ پڑھنا شروع کر دیا اور کہا: تو ہلاک ہو جائے، تو پھر امیر کا کیا بنا؟ اس نے کہا: فلاں تھا، فلاں تھا، پھر اس نے کچھ نام لینے کے بعد کہا: امیر المؤمنین! اور لوگ بھی ہیں، لیکن آپ ان کو نہیں جانتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:، جبکہ وہ خود رو رہے تھے: اگر عمر نہیں جانتا تو کوئی حرج نہیں، اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2137]