الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سلسله احاديث صحيحه
السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان
سفر، جہاد، غزوہ اور جانور کے ساتھ نرمی برتنا
1397. جہاد کا آغاز کرنے کا بہترین وقت اور واقعہ نہاوند، فاروقی سپاہ سر زمین ایران میں
حدیث نمبر: 2137
-" كان إذا غزا فلم يقاتل أول النهار لم يعجل حتى تحضر الصلوات وتهب الأرواح ويطيب القتال".
جبیر بن حیہ کہتے ہیں: مجھے میرے باپ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہرمزان سے کہا: تم تو مجھ سے بچ گئے ہو، اب ہماری خیرخواہی تو کرو۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے اسے امان دیتے ہوئے کہا: کوئی حرج نہیں، تم بات کر سکتے ہو۔ سو ہرمزان نے کہا: جی ہاں، آج فارس کا ایک سر ہے اور دو بازو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: سر کہاں ہے؟ ہرمزان: نہاوند، جو بندار کے ساتھ ہے، اس کے ساتھ کسری کے کمانڈر اور اہل اصفہان بھی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: دو بازوں کہاں ہیں؟ ہرمزان: راوی کہتا ہے کہ اس نے جو جگہ ذکر کی تھی، وہ اسے بھول گئی ہے، پھر ہرمزان نے کہا: بازؤوں کو کاٹ دو، تاکہ سر کمزور ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: اللہ کے دشمن! تو جھوٹ بول رہا ہے، ہم پہلے سر پر چڑھائی کریں گے، اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ملیا میٹ کر دے گا، اگر ایسے ہو گیا تو بازو خود بخود دم توڑ جائیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ جنگ میں بنفس نفیس شرکت کریں۔ لیکن لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ خود عجموں کی طرف نہ جائیں، اگر آپ شہید ہو گئے تو مسلمانوں کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، آپ مجاہدین کے لشکروں کو بھیج دیں۔ (آپ نے اسی رائے پر عمل کیا اور) اور اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر، مہاجرین اور انصار سمیت اہل مدینہ کو اہل فارس سے لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ ادھر سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اہل بصرہ کو لے کر اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اہل کوفہ کو لے کر نہاوند جمع ہو جائیں۔ جب تم سارے جمع ہو جاؤ تو تمہارے امیر سیدنا نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ جب یہ لشکر نہاوند میں جمع ہوئے تو (عامل کسری) بندار، جو کہ آتش پرست تھا، نے ان کی طرف پیغام بھیجا: عربوں کی جماعت! اپنا قاصد بھیجو تاکہ بات کی جا سکے۔ لوگوں نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ جبیر بن حیہ کہتے ہیں: گویا میں اب بھی مغیرہ کو دیکھ رہا ہوں، وہ ایک دراز قد آدمی تھے، ان کے لمبے لمبے بال تھے اور وہ کانے بھی تھے۔ پس وہ چلے گئے اور جب (گفت و شنید کر کے) واپس آئے تو ہم نے پوچھا: (کہ کیا کر کے آئے ہو)۔ انہوں نے کہا: آتش پرست نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پوچھا: اس عربی کے لیے ہم کیسا ماحول بنائیں؟ کیا حسن و جمال، خوشی و شادمانی اور ملوکیت و بادشاہت والا یا پھر جان بوجھ کر تنگ حالی ظاہر کریں اور دنیوی (آرائشوں اور سہولتوں) سے ذرا دور ہو جائیں؟ انہوں نے کہا: بلکہ ہمیں چاہیے کہ اپنے حسن اور تعداد کی اعلیٰ صورت اختیار کریں۔ (بہرحال میں وہاں پہنچ گیا) کیا دیکھتا ہوں کہ لڑنے کے آلے اور ڈھالیں، بس آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، میں نے دیکھا کہ وہ بندار کے پاس کھڑے تھے، جبکہ وہ سونے کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سر پر تاج تھا۔ میں سیدھا آگے نکل گیا اور اس کے ساتھ تخت پر بیٹھنے کے لیے سر جھکایا (جیسے عام بندہ بیٹھنے کی تیاری کرتا ہے)، لیکن مجھے دھکیلا گیا اور میری زجر و توبیخ کی گئی۔ میں نے کہا: کہ قاصدوں سے ایسی (بدسلوکی) نہیں کرتے۔ جبکہ انہوں نے مجھے کہا: تو کتا ہے، کیا تو بادشاہ کے ساتھ بیٹھتا ہے؟ میں نے کہا: جتنا تم میں اس کا مقام ہے، میری قوم میں اس سے زیادہ میرا مقام ہے۔ پھر بھی اس نے مجھے ڈانٹا اور کہا: بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ (پہلے بادشاہ نے کچھ کہا: اور) میرے سامنے اس کی بات کا یوں ترجمہ پیش کیا گیا: او عربوں کی جماعت! تم سب سے زیادہ بھوکے تھے، سب سے بڑے بدبخت تھے، سب سے زیادہ گندے تھے، (ترقی یافتہ سلطنتوں سے) بلکہ ہر خیر سے بہت دور تھے، میں نے تمہیں تیروں میں پرونے والے اپنے کمانڈروں کو حکم دے دینا تھا، لیکن تمہاری گندی اور پلید لاشوں کی وجہ سے ایسے نہیں کیا، اب اگر تم واپس چلے گئے تو ٹھیک اور اگر ایسا کرنے سے انکار کیا تو ہم تمہیں تمہاری قتل گاہوں میں ٹھہرا دیں گے۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: بخدا! تو نے ہمارے صفات بیان کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی، ہم (ترقی یافتہ سلطنتوں) سے دور تھے، بھوکے تھے، بدبخت تھے اور ہر بھلائی سے محروم تھے۔ (لیکن ایک ایسا وقت آیا کہ) اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول مبعوث کر دیا، اس نے ہمیں دنیا میں تائید و نصرت اور آخرت میں جنت و بہشت کی خوشخبریاں دیں، اس رسول کی آمد سے لے کر یہاں تمہارے پاس پہنچنے تک ہم اپنے رب سے کامیابی اور مدد وصول کرتے رہے، ٹھیک ہے، تمہارے پاس ایسی بادشاہت اور زندگی ہے، (لیکن یہ ہمارے نزدیک بدبختی ہے) اور ہم اس شقادت کی طرف کبھی نہیں لوٹیں گے، جب تک تم پر غالب نہ آ جائیں یا پھر یہیں شہید نہ ہو جائیں۔ اس نے کہا: کانے نے اپنے دل کی بات بیان کر دی اور سچ کہا: ہے۔ اس کے بعد میں اس کے پاس سے کھڑا ہوا (اور واپس آ گیا)، اللہ کی قسم! میں نے اپنے انداز سے پارسی کو مرعوب کر دیا۔ اس نے ہماری طرف پیغام بھیجا کہ تم (دریا) عبور کر کے آؤ گے یا ہم؟ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: (میرے ساتھیو!) تم عبور کر کے جاؤ، پس ہم (دریا) عبور کر کے پہنچ گئے۔ میرے باپ (جبیر) نے کہا: میں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا، آتش پرست فارسیوں کا لشکر یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ لوہے کا پہاڑ ہے، انہوں نے عربوں کا مقابلہ کرنے سے فرار نہ ہونے کا عہد و پیمان کر رکھا تھا اور بعض (جنگجؤں) کو بعض کے ساتھ ملایا گیا تھا، حتی کہ ایک رسی میں سات افراد تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے نوک دار لوہا بچھا دیا اور کہنے لگے کہ جو بھی فرار اختیار کرے گا، نوک دار لوہا اسے زخمی کر دے گا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان کی کثرت کو دیکھ کر کہا: کہ (اس جنگ میں کافروں کی جتنی تعداد قتل ہو گی) اتنی تعداد میں نے کبھی نہیں دیکھی، بے شک ہمارا دشمن نیند یا سکون کو ترک کر چکا ہے، اس لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال اگر میں امیر ہوتا تو ان کے ساتھ تیزی کے ساتھ مقابلہ کرتا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے شخص تھے، انہوں نے مجھے کہا: اللہ تجھے اس قسم کے حالات میں حاضر کرے گا، (اس وقت دیکھ لینا کہ کیا کرنا ہے)۔ اب تیرا جو مقام ہے، اس پر تجھے پریشان ہونا چاہئیے نہ اسے معیوب سمجھنا چاہئیے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! مجھے ان کے ساتھ لڑائی کرنے میں عجلت سے مانع چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو دن کے شروع میں لڑائی نہ کرتے، بلکہ ٹھہرتے حتی کہ نماز کا وقت ہو جاتا (یعنی سورج ڈھل جاتا)، ہوائیں چلنا شروع ہو جاتیں اور لڑنا خوشگوار ہو جاتا۔ پھر سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس فتح میں اسلام اور اہل اسلام کی عزت اور کفر اور اہل کفر کی ذلت ہو، اس کے ذریعے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دینا اور اس کے بعد مجھے شہادت عطا کر دینا۔ پھر کہا: آمین کہو، پس ہم نے آمین کہی۔ پھر وہ رونے لگ گئے اور ہم بھی روئے۔ پھر سیدنا نعمان نے کہا: جب میں پہلی دفعہ جھنڈا ہلاؤں گا تو اپنا اسلحہ تھام لینا، جب دوسری دفعہ ہلاؤں تو دشمن سے لڑنے کے لئے تیار ہو جانا اور جب تیسری دفعہ ہلاؤں تو ہر کوئی اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ اپنے قریبی دشمن پر حملہ کر دے۔ جب (ظہر کی) نماز کا وقت ہوا اور ہوائیں چل پڑیں تو انہوں نے اللہ اکبر کہا:، ہم نے بھی اللہ اکبر کہا:۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ان شاء اللہ فتح کی ہوا چل پڑی ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی میری دعا قبول کر کے ہمیں فتح عطا کرے گا۔ پھر انہوں نے پہلی دفعہ جھنڈا ہلایا، پھر دوسری دفعہ ہلایا اور جب تیسری دفعہ اسے حرکت دی تو ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں شہید ہو جاؤں تو حذیفہ بن یمان امیر لشکر ہوں گے، اگر وہ بھی شہید ہو جایئں تو فلاں ہوں، ان کے بعد فلاں، حتیٰ، کے انہوں نے سات امیروں کا ذکر کیا، آخر میں سیدنا مغیرہ شعبہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا۔ میرے باپ (جبیر) نے کہا: اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق ہر مسلمان یہ چاہتا تھا کہ یا تو وہ شہید ہو جائے یا پھر فتح یاب، دشمن بھی ہمارے مقابلے میں ڈٹے رہے، ہمیں صرف لوہے کی لوہے پر پڑنے کی آواز آتی تھی، بالآخر ایسے ہوا کہ مسلمان کی بہت بڑی تعداد شہید ہو گئی، لیکن جب انہوں نے ہمارا صبر اور عزم دیکھا کہ ان لوگوں کا فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو وہ شکست کے لیے تیار ہو گئے، جب ایک مجاہد کسی ایک دشمن پر حملہ آور ہوتا تو وہ ایک رسی میں باندھے ہوئے ساتوں کے سات اس پر ٹوٹ پڑھتے، لیکن ہوتا یوں کہ سارے کے سارے قتل ہو جاتے پیچھے سے نوکیلا لوہا ان کو زخمی کرتا، سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جھنڈا آگے بڑھاؤ، پس ہم نے جھنڈا آگے بڑھانا اور ان کو قتل کرنا شروع کر دیا اور وہ شکست کھانا شروع ہو گئے۔ جب سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے اور فتح عطا کی ہے، اسی اثنا میں ایک تیر آیا اور ان کی کوکھ میں پیوست ہو گیا اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کے بھائی معقل بن مقرن نے ان کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اور جھنڈا خود تھام لیا اور آگے بڑھا اور کہا: اللہ تم پر رحم کرے، پیش قدمی جاری رکھو، سو ہم نے ایسا ہی کیا اور ان کو شکست دینا اور ان کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو لوگ جمع ہو کر پوچھنے لگے کہ امیر کہاں ہے؟ معقل نے کہا: یہ تمہارا امیر ہے، اللہ تعالی نے فتح عطا کر کے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کر کے ان کو شہادت سے ہمکنار کر دیا۔ لوگوں نے سیدنا حزیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ ادھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں دعا کرنے میں مگن اور حاملہ کے چیخنے کی طرح منتظر تھے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان کو فتح کا پیغام پہنچانے کے لیے خط لکھا اور ایک مسلمان کے ہاتھ بھیج دیا۔ جب وہ پہنچا تو یوں فتح کا پیغام سنایا: امیر المؤمنین! خوش ہو جائیے، فتح ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی ہے اور شرک اور مشرکوں کو ذلیل کر دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تجھے نعمان نے بھیجا ہے؟ اس نے کہا: امیر المؤمنین! نعمان کی وفات پر ثواب کی توقع کے ساتھ صبر کیجئیے۔ یہ سن کر آپ نے رونا اور اناللہ پڑھنا شروع کر دیا اور کہا: تو ہلاک ہو جائے، تو پھر امیر کا کیا بنا؟ اس نے کہا: فلاں تھا، فلاں تھا، پھر اس نے کچھ نام لینے کے بعد کہا: امیر المؤمنین! اور لوگ بھی ہیں، لیکن آپ ان کو نہیں جانتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:، جبکہ وہ خود رو رہے تھے: اگر عمر نہیں جانتا تو کوئی حرج نہیں، اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السفر والجهاد والغزو والرفق بالحيوان/حدیث: 2137]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2826

قال الشيخ الألباني:
- " كان إذا غزا فلم يقاتل أول النهار لم يعجل حتى تحضر الصلوات وتهب الأرواح ويطيب القتال ".
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏أخرجه ابن جرير الطبري في " التاريخ " (2 / 233 - 235) وابن حبان (1712 -
‏‏‏‏الموارد) والسياق له من طريق: مبارك بن فضالة: حدثنا زياد بن جبير بن حية
‏‏‏‏قال: (أخبرني أبي أن عمر بن الخطاب رضوان الله عليه قال للهرمزان: أما إذ
‏‏‏‏فتني (¬1) بنفسك فانصح لي. وذلك أنه قال له: " تكلم لا بأس "، فأمنه، فقال
‏‏‏‏الهرمزان: نعم، إن فارس اليوم رأس وجناحان. قال: فأين الرأس؟ قال:
‏‏‏‏نهاوند مع بندار (¬2) ، قال: فإنه معه أساورة كسرى وأهل أصفهان. قال: فأين
‏‏‏‏الجناحان؟ فذكر الهرمزان مكانا نسيته، فقال الهرمزان: اقطع الجناحين توهن
‏‏‏‏الرأس. فقال له عمر رضوان الله عليه: كذبت يا عدو الله، بل أعمد إلى الرأس
‏‏‏‏فيقطعه الله، فإذا قطعه الله عني انقطع عني الجناحان. فأراد عمر أن يسير إليه
‏‏‏‏بنفسه، فقالوا: نذكرك الله يا أمير المؤمنين أن تسير بنفسك إلى العجم، فإن
‏‏‏‏أصبت بها لم يكن للمسلمين نظام، ولكن ابعث الجنود. قال: فبعث أهل المدينة
‏‏‏‏وبعث فيهم عبد الله بن عمر بن الخطاب، وبعث المهاجرين والأنصار، وكتب إلى
‏‏‏‏أبي موسى الأشعري أن سر بأهل البصرة، وكتب إلى حذيفة بن اليمان أن سر بأهل
‏‏‏‏الكوفة حتى تجتمعوا بنهاوند جميعا، فإذا اجتمعتم فأميركم النعمان بن مقرن
‏‏‏‏المزني. فلما اجتمعوا
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) الأصل (أمتني) ، والتصحيح من " الإحسان " (4736) .
‏‏‏‏(¬2) الأصل (بيداد) ، والتصحيح من " الإحسان " و " تاريخ الطبري "، ومنهما
‏‏‏‏صححت بعض الأخطاء الأخرى.
‏‏‏‏__________جزء : 6 /صفحہ : 785__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏بنهاوند أرسل إليهم بندار [العلج] أن أرسلوا إلينا يا
‏‏‏‏معشر العرب رجلا منكم نكلمه، فاختار الناس المغيرة بن شعبة، قال أبي: فكأني
‏‏‏‏أنظر إليه: رجل طويل أشعر أعور، فأتاه، فلما رجع إلينا سألناه؟ فقال لنا:
‏‏‏‏وجدت العلج قد استشار أصحابه في أي شيء تأذنون لهذا العربي؟ أبشارتنا وبهجتنا
‏‏‏‏وملكنا؟ أو نتقشف له فنزهده عما في أيدينا؟ فقالوا: بل نأذن له بأفضل ما
‏‏‏‏يكون من الشارة والعدة. فلما رأيتهم رأيت تلك الحراب والدرق يلمع منها البصر
‏‏‏‏، ورأيتهم قياما على رأسه، فإذا هو على سرير من ذهب، وعلى رأسه التاج،
‏‏‏‏فمضيت كما أنا، ونكست رأسي لأقعد معه على السرير، فقال: فدفعت ونهرت،
‏‏‏‏فقلت: إن الرسل لا يفعل بهم هذا. فقالوا لي: إنما أنت كلب، أتقعد مع الملك
‏‏‏‏؟! فقلت: لأنا أشرف في قومي من هذا فيكم، قال: فانتهرني وقال: اجلس.
‏‏‏‏فجلست. فترجم لي قوله، فقال: يا معشر العرب، إنكم كنتم أطول الناس جوعا،
‏‏‏‏وأعظم الناس شقاء، وأقذر الناس قذرا، وأبعد الناس دارا، وأبعده من كل
‏‏‏‏خير، وما كان منعني أن آمر هذه الأساورة حولي أن ينتظموكم بالنشاب إلا تنجسا
‏‏‏‏لجيفكم لأنكم أرجاس، فإن تذهبوا يخلى عنكم، وإن تأبوا نبوئكم مصارعكم. قال
‏‏‏‏المغيرة: فحمدت الله وأثنيت عليه وقلت: والله ما أخطأت من صفتنا ونعتنا
‏‏‏‏شيئا، إن كنا لأبعد الناس دارا، وأشد الناس جوعا، وأعظم الناس شقاء،
‏‏‏‏وأبعد الناس من كل خير، حتى بعث الله إلينا رسولا فوعدنا بالنصر في الدنيا،
‏‏‏‏والجنة في الآخرة، فلم نزل نتعرف من ربنا - مذ جاءنا رسوله صلى الله عليه وسلم
‏‏‏‏- الفلاح والنصر، حتى أتيناكم، وإنا والله نرى لكم ملكا وعيشا لا نرجع إلى
‏‏‏‏ذلك الشقاء أبدا حتى نغلبكم على ما في أيديكم أو نقتل في أرضكم. فقال: أما
‏‏‏‏الأعور فقد صدقكم الذي في نفسه. فقمت من عنده وقد والله أرعبت العلج جهدي،
‏‏‏‏فأرسل إلينا العلج: إما أن تعبروا إلينا بنهاوند وإما أن نعبر إليكم. فقال
‏‏‏‏النعمان: اعبروا
‏‏‏‏__________جزء : 6 /صفحہ : 786__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏فعبرنا. فقال أبي: فلم أر كاليوم قط، إن العلوج يجيئون
‏‏‏‏كأنهم جبال الحديد، وقد تواثقوا أن لا يفروا من العرب، وقد قرن بعضهم إلى
‏‏‏‏بعض حتى كان سبعة في قران، وألقوا حسك الحديد خلفهم وقالوا: من فر منا عقره
‏‏‏‏حسك الحديد. فقال: المغيرة بن شعبة حين رأى كثرتهم: لم أر كاليوم قتيلا (¬1)
‏‏‏‏، إن عدونا يتركون أن يتناموا، فلا يعجلوا. أما والله لو أن الأمر إلي لقد
‏‏‏‏أعجلتهم به. قال: وكان النعمان رجلا بكاء، فقال: قد كان الله جل وعز
‏‏‏‏يشهدك أمثالها فلا يحزنك ولا يعيبك موقفك. وإني والله ما يمنعني أن أناجزهم
‏‏‏‏إلا لشيء شهدته من رسول الله صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه
‏‏‏‏وسلم.. (فذكر الحديث) . ثم قال النعمان: اللهم إني أسألك أن تقر عيني بفتح
‏‏‏‏يكون فيه عز الإسلام وأهله، وذل الكفر وأهله. ثم اختم لي على أثر ذلك
‏‏‏‏بالشهادة. ثم قال: أمنوا رحمكم الله. فأمنا وبكى فبكينا. فقال النعمان:
‏‏‏‏إني هاز لوائي فتيسروا للسلاح، ثم هازها الثانية، فكونوا متيسرين لقتال عدوكم
‏‏‏‏بإزائكم، فإذا هززتها الثالثة فليحمل كل قوم على من يليهم من عدوهم على بركة
‏‏‏‏الله، قال: فلما حضرت الصلاة وهبت الأرواح كبر وكبرنا. وقال: ريح الفتح
‏‏‏‏والله إن شاء الله، وإني لأرجو أن يستجيب الله لي، وأن يفتح علينا. فهز
‏‏‏‏اللواء فتيسروا، ثم هزها الثانية، ثم هزها الثالثة، فحملنا جميعا كل قوم على
‏‏‏‏من يليهم. وقال النعمان: إن أنا أصبت فعلى الناس حذيفة بن اليمان، فإن أصيب
‏‏‏‏حذيفة ففلان، فإن أصيب فلان [ففلان] حتى عد سبعة آخرهم المغيرة بن شعبة.
‏‏‏‏قال أبي: فوالله ما علمت من المسلمين أحدا يحب أن يرجع إلى أهله حتى يقتل أو
‏‏‏‏يظفر. فثبتوا لنا، فلم نسمع إلا وقع الحديد على الحديد، حتى أصيب في
‏‏‏‏¬
‏‏‏‏__________
‏‏‏‏(¬1) وكذا في " الإحسان "، وفي " التاريخ " (فشلا) . اهـ.
‏‏‏‏__________جزء : 6 /صفحہ : 787__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏المسلمين عصابة عظيمة. فلما رأوا صبرنا ورأونا لا نريد أن نرجع انهزموا،
‏‏‏‏فجعل يقع الرجل فيقع عليه سبعة في قران فيقتلون جميعا، وجعل يعقرهم حسك
‏‏‏‏الحديد خلفهم. فقال النعمان: قدموا اللواء، فجعلنا نقدم اللواء فنقتلهم
‏‏‏‏ونهزمهم، فلما رأى النعمان قد استجاب الله له ورأى الفتح، جاءته نشابة فأصابت
‏‏‏‏خاصرته، فقتلته. فجاء أخوه معقل بن مقرن فسجى عليه ثوبا، وأخذ اللواء،
‏‏‏‏فتقدم ثم قال: تقدموا رحمكم الله، فجعلنا نتقدم فنهزمهم ونقتلهم، فلما
‏‏‏‏فرغنا واجتمع الناس قالوا: أين الأمير؟ فقال معقل: هذا أميركم قد أقر الله
‏‏‏‏عينه بالفتح، وختم له بالشهادة. فبايع الناس حذيفة بن اليمان. قال: وكان
‏‏‏‏عمر بن الخطاب رضوان الله عليه بالمدينة يدعو الله، وينتظر مثل صيحة الحبلى،
‏‏‏‏فكتب حذيفة إلى عمر بالفتح مع رجل من المسلمين، فلما قدم عليه قال: أبشر يا
‏‏‏‏أمير المؤمنين بفتح أعز الله فيه الإسلام وأهله، وأذل فيه الشرك وأهله.
‏‏‏‏وقال: النعمان بعثك؟ قال: احتسب النعمان يا أمير المؤمنين، فبكى عمر
‏‏‏‏واسترجع، فقال: ومن ويحك؟ قال: فلان وفلان - حتى عد ناسا - ثم قال:
‏‏‏‏وآخرين يا أمير المؤمنين لا تعرفهم. فقال عمر رضوان الله عليه - وهو يبكي -:
‏‏‏‏لا يضرهم أن لا يعرفهم عمر، لكن الله يعرفهم) . قلت: وهذا إسناد صحيح رجاله
‏‏‏‏ثقات، قد صرح مبارك بن فضالة بالتحديث، وقد تابعه سعيد بن عبيد الله الثقفي
‏‏‏‏: حدثنا بكر بن عبد الله المزني وزياد بن جبير عن جبير بن حية به إلى قوله: "
‏‏‏‏وتحضر الصلوات ". أخرجه البخاري (3159 و 3160) ، وفيه زيادة: " والجناح
‏‏‏‏قيصر "، وأشار الحافظ (6 / 264) إلى شذوذها، لمخالفتها لطريق مبارك بن
‏‏‏‏فضالة هذه، وطريق معقل بن يسار الآتية، وفيها: " أصبهان الرأس، وفارس
‏‏‏‏وأذربيجان الجناحان ".
‏‏‏‏__________جزء : 6 /صفحہ : 788__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏وهذا أولى كما قال الحافظ فراجعه. قلت: ولعل الوهم
‏‏‏‏في هذه الزيادة الشاذة من سعيد بن عبيد الله الثقفي، فقد تكلم فيه بعضهم من
‏‏‏‏قبل حفظه، وقال الحافظ نفسه في " التقريب ": " صدوق ربما وهم ". وللحديث
‏‏‏‏طريق أخرى من رواية حماد بن سلمة قال: أخبرني أبو عمران الجوني عن علقمة بن
‏‏‏‏عبد الله المزني عن معقل بن يسار أن عمر بن الخطاب شاور الهرمزان في فارس
‏‏‏‏وأصبهان وأذربيجان الحديث بطوله مع اختصار بعض الجمل. أخرجه ابن أبي شيبة (13
‏‏‏‏/ 8 - 13) . قلت: وإسناده جيد، رجاله رجال الصحيح غير علقمة بن عبد الله
‏‏‏‏المزني، وهو ثقة ". وقال الحافظ في " مقدمة الفتح " (ص 405) : " سنده قوي
‏‏‏‏". وعزاه الهيثمي في " مجمع الزوائد " (6 / 215 - 217) للطبراني، وقال:
‏‏‏‏" ورجاله رجال الصحيح غير علقمة بن عبد الله المزني، وهو ثقة ". وروى منه
‏‏‏‏أحمد وغيره حديث الترجمة، وهو مخرج في " صحيح أبي داود " (2385) .
‏‏‏‏¤