عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے، چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، اسی طرح مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوموسیٰ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ابوموسیٰ کی حدیث غیر محفوظ ہے، اور انس کی حدیث بھی غیر محفوظ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسے ابراہیم بن بشار رمادی نے بسند «سفيان بن عيينة عن بريد بن عبد الله بن أبي بردة عن أبي بردة عن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اس حدیث کو کئی لوگوں نے بسند «سفيان عن بريد عن أبي بردة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسل طریقہ سے روایت کی ہے، مگر یہ مرسل روایت زیادہ صحیح ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اسحاق بن ابراہیم نے بسند «معاذ بن هشام عن أبيه عن قتادة عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہر نگہبان سے پوچھے گا اس چیز کے بارے میں جس کی نگہبانی کے لیے اس کو رکھا ہے،
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: یہ روایت غیر محفوظ ہے، صحیح وہی ہے جو «عن معاذ بن هشام عن أبيه عن قتادة عن الحسن عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1705]
وضاحت: ۱؎: یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہو گی، اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ داری کا حساب و کتاب بھی دینا ہے۔