براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لشکر روانہ کیا ۱؎، ایک پر علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کو اور دوسرے پر خالد بن ولید رضی الله عنہ کو امیر مقرر کیا اور فرمایا: ”جب جنگ ہو تو علی امیر ہوں گے ۲؎“، علی رضی الله عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں سے ایک لونڈی لے لی، خالد بن ولید رضی الله عنہ نے مجھ کو خط کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ”اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں میں تو صرف قاصد ہوں، لہٰذا آپ خاموش ہو گئے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف احوص بن جواب کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابن عمر سے بھی حدیث مروی ہے، ۳- «يشي به» کا معنی چغل خوری ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1704]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف واعادہ في المناقب برقم 3725، (تحفة الأشراف: 1901) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابواسحاق مدلس ومختلط ہیں، لیکن عمران بن حصین (عند المؤلف برقم 3712) کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ دونوں لشکر یمن کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔
۲؎: یعنی پہنچتے ہی اگر دشمن سے مقابلہ شروع ہو جائے تو علی رضی الله عنہ اس کے امیر ہوں گے، اور اگر دونوں لشکر علیحدہ علیحدہ رہیں تو ایک کے علی رضی الله عنہ اور دوسرے کے خالد رضی الله عنہ امیر ہوں گے۔
۳؎: یعنی ایک آدمی کی ماتحتی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا، اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی اور اس کے قلم سے یہ خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اب اس میں میرا کیا قصور ہے یہ سن کر آپ خاموش رہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // وسيأتي (776 / 3991) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1704) إسناده ضعيف / يأتي : 3725 أبوإسحاق السبيعي عنعن (تقدم: 107)