فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ (مسجد میں) تشریف فرما تھے، اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا، اس نے نماز پڑھی، اور یہ دعا کی: اے اللہ! میری مغفرت کر دے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ (درود) بھیج، پھر اللہ سے دعا کر“، کہتے ہیں: اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی، اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نمازی! دعا کر، تیری دعا قبول کی جائے گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو حیوہ بن شریح نے ابوہانی خولانی سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3476]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1481)، سنن النسائی/السھو 48 (1285) (تحفة الأشراف: 11031)، و مسند احمد (6/18) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (1331)
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز کے اندر ۱؎ دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) نہ بھیجا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جلدی کی“، پھر آپ نے اسے بلایا، اور اس سے اور اس کے علاوہ دوسروں کو خطاب کر کے فرمایا، ”جب تم میں سے کوئی بھی نماز پڑھ چکے ۲؎ تو اسے چاہیئے کہ وہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجے، پھر اس کے بعد وہ جو چاہے دعا مانگے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3477]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نماز کے اندر سے مراد ہے کہ آخری رکعت میں درود کے بعد اور سلام سے پہلے نماز میں دعا کا یہی محل ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا میں کوشش کرو۔
۲؎: یعنی: پوری نماز سے فارغ ہو کر صرف سلام کرنا باقی رہ جائے، یہ معنی اس لیے لینا ہو گا کہ اسی حدیث میں آ چکا ہے کہ پہلے شخص نے نماز کے اندر دعا کی تھی اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ ”اس نے صلاۃ (درود) نہ بھیج کر جلدی کی“، نیز دعا اللہ سے قرب کے وقت زیادہ قبول ہوتی ہے اور بندہ سلام سے پہلے اللہ سے بنسبت سلام کے بعد زیادہ قریب ہوتا ہے، ویسے سلام بعد بھی دعا کی کی جا سکتی ہے، مگر شرط وہی ہے کہ پہلے حمد و ثنا اور درود و سلام کا نذرانہ پیش کر لے۔
اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے (ایک آیت) «وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم»”تم سب کا معبود ایک ہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ رحمن، رحیم ہے“(البقرہ: ۱۶۳)، اور (دوسری آیت) آل عمران کی شروع کی آیت «الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم» ہے ” «الم»، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو «حی» زندہ اور «قیوم» سب کا نگہبان ہے“(آل عمران: ۱-۲)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3478]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1496)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 9 (3855) (تحفة الأشراف: 15767) (حسن) (سند میں ”عبید اللہ بن ابی زیاد القداح“ اور ”شہر بن حوشب“ ضعیف ہیں، مگر ابو امامہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 746)۔»