الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
65. باب وَمِنْ سُورَةِ التَّحْرِيمِ
65. باب: سورۃ التحریم سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3318
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ، عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ سورة التحريم آية 4 فَقَالَ لِي: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ، فَقَالَ: هِيَ عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ، فَقَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ مِنْ ذَلِكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَتْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، كُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، قَالَ: فَجَاءَنِي يَوْمًا عِشَاءً فَضَرَبَ عَلَيَّ الْبَابَ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: أَجَاءَتْ غَسَّانُ، قَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَا أَدْرِي هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرَبَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، قَالَ: فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، قَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْكُونَ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ أَيْضًا فَجَلَسْتُ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَنَحْنُ مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؟، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ صَاحِبَتُكِ أَوْسَمَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْتَأْنِسُ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَهُ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَقَالَ: " أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَ: وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا فَعَاتَبَهُ اللَّهُ فِي ذَلِكَ وَجَعَلَ لَهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي، قَالَ: " يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ شَيْئًا فَلَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ سورة الأحزاب آية 28 " الْآيَةَ، قَالَتْ: عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ.
عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں (التحریم: ۴)، (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی الله عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا، (اسی دوران) میں نے ان سے پوچھا: امیر المؤمنین! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دو بیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه» عمر رضی الله عنہ نے مجھ سے حیرت سے کہا: ہائے تعجب! اے ابن عباس (تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں) (زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس رضی الله عنہما نے جو بات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتا دی) انہوں نے مجھے بتایا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی الله عنہما ہیں، پھر وہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا: ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دبا کر رکھتے تھے، مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں، تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں، ایک دن ایسا ہوا کہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے (سخت) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے، اس نے کہا: آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے؟ قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑے رہتی ہیں (روٹھی اور اینٹھی رہتی) ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا: آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی، میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا، اور میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے، ایک دن وہ آتا اور جو کچھ ہوا ہوتا وہ واپس جا کر مجھے بتاتا، اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جا کر اسے بتاتا، ہم (اس وقت) باتیں کیا کرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں، ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آ کر، دروازہ کھٹکھٹایا، میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا، اس نے کہا: ایک بڑی بات ہو گئی ہے، میں نے پوچھا: کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کر آئے ہیں؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے اپنے جی میں کہا: حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی، میں سوچا کرتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا، حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ (بیٹھی) رو رہی تھی، میں نے پوچھا: کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم ہے، البتہ آپ اس بالاخانے پر الگ تھلگ بیٹھے ہیں، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں (اٹھ کر آپ سے ملنے) چلا، میں ایک کالے رنگ کے (دربان) لڑکے کے پاس آیا اور اس سے کہا: جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر کے آنے کی اجازت مانگو، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کے آنے کی خبر کی مگر آپ نے کچھ نہ کہا، میں مسجد چلا گیا (دیکھا) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رو رہے تھے، میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا، (مجھے سکون نہ ملا) میری فکرو تشویش بڑھتی گئی، میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا، میں نے کہا: جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، اس نے کہا: میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں دوبارہ مسجد میں آ کر بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہو گئی، میں (سہ بارہ) لڑکے کے پاس آ گیا اور اس سے کہا: جاؤ اور آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، کہا: میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا، (یہ سن کر) میں پلٹ پڑا، یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا، (آ جائیے آ جائیے) اندر تشریف لے جائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دے دی ہے، میں اندر چلا گیا، میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر و نشان آپ کے پہلوؤں میں دیکھا، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: اللہ اکبر، آپ نے دیکھا ہو گا اللہ کے رسول! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ آ گئے تو ہمارا سابقہ ایک ایسی قوم سے پڑ گیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں، ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے (ان کے طور طریقے) سیکھنے لگیں، ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے یہ سخت برا لگا، کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برا لگ رہا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر (روٹھی و اینٹھی) رہتی ہے، میں نے حفصہ سے کہا: کیا تم پلٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں، ہم میں کوئی بھی آپ سے (خفا ہو کر) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے، میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ گھاٹے میں رہی اور ناکام ہوئی، کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض و ناخوش ہو جائے اور وہ ہلاک و برباد ہو جائے؟ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے حفصہ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو، جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن تو تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہے ۱؎ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکرا دیئے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں دل بستگی کی بات کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، عمر کہتے ہیں: میں نے سر اٹھایا تو گھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی و فراوانی دے جو اس نے روم و فارس کو دی ہے، جب کہ وہ اس کی عبادت و بندگی بھی نہیں کرتے ہیں، (یہ سن کر) آپ جم کر بیٹھ گئے، فرمایا: خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک و شبہہ میں پڑے ہوئے ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین (قسم کا کفارہ) ادا کرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں: عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ جب مہینے کے ۲۹ دن گزر گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے، آپ نے فرمایا: میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والا ہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها النبي قل لأزواجك» (آخر آیت تک) اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگینیاں چاہیئے، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں، اور خوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں، اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (الاحزاب: ۲۸، ۲۹)، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ جانتے تھے، قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کر لینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے، میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اور پسند کرتی ہوں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3318]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2461 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے اگر اس حرکت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی الله عنہا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں تو تم بھی اس بھرے میں مت آؤ، وہ تو تم سے زیادہ حسن و جمال کی مالک ہیں، ان کا کیا کہنا!۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3318M
قَالَ قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تُخْبِرْ أَزْوَاجَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا بَعَثَنِي اللَّهُ مُبَلِّغًا وَلَمْ يَبْعَثْنِي مُتَعَنِّتًا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
معمر کہتے ہیں: مجھے ایوب نے خبر دی کہ عائشہ رضی الله عنہا نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ اپنی دوسری بیویوں کو نہ بتائیے گا کہ میں نے آپ کو چنا اور پسند کیا ہے، آپ نے فرمایا: اللہ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہے تکلیف پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3318M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الطلاق 5 (1475) (حسن) (سند میں بظاہر انقطاع ہے، اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا، اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکر کیا، بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے، اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (3/328) میں بسند ابوالزبیر عن جابر مرفوعا ہے، جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے، اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحة 1516)»

قال الشيخ الألباني: صحيح