ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے، لیکن (کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے، ۲- سفیان بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: مالک بن انس ہیں، ۳- اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں: میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ (یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں، ۴- میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ (عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں، ۵- عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں، اور یہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2680]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 12877)، و مسند احمد (2/299) (ضعیف) (سند میں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے، مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط، اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (246) ، التعليق على التنكيل (1 / 385) ، الضعيفة (4833) // ضعيف الجامع الصغير (6448) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2680) إسناده ضعيف ابن جريج و أبو الزبير عنعنا (تقدما: 674 ،10) وللحديث شاهد منقطع عند ابن عبدالبر في الإنتقاء (ص209)