ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤ ڈالا اور ان سے ضیافت کی درخواست کی، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چنانچہ انہوں نے ہمارے پاس آ کر کہا: کیا آپ میں سے کوئی بچھو کے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے، چنانچہ ہم نے قبول کر لیا اور میں نے سات بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہو گیا اور ہم نے بکریاں لے لیں ۱؎، ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ۲؎، لہٰذا ہم نے کہا: جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کر دیا، آپ نے فرمایا: ”تم نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا) ہے؟ تم لوگ بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- شعبہ، ابو عوانہ ہشام اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي المتوكل عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ۳- تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اور وہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2063]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإجارة 16 (2276)، وفضائل القرآن 9 (5007)، والطب 33 (5736)، و39 (5749)، صحیح مسلم/السلام 23 (2201)، سنن ابی داود/ الطب 19 (3900)، سنن ابن ماجہ/التجارات 7 (2156) (تحفة الأشراف: 4307)، و مسند احمد (3/44) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔
۲؎: جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان، قضاء، امامت، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ (جن میں شامل میں بھی تھا) عرب کے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی، اسی دوران ان کا سردار بیمار ہو گیا، چنانچہ ان لوگوں نے ہمارے پاس آ کر کہا: آپ لوگوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت نہ متعین کر دو، انہوں نے اس کی اجرت میں بکری کا ایک گلہ مقرر کیا، ہم میں سے ایک آدمی (یعنی میں خود) اس کے اوپر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگا تو وہ صحت یاب ہو گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ جھاڑ پھونک (کی دعا) ہے؟ ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے آپ سے اس پر کوئی نکیر ذکر نہیں کی، آپ نے فرمایا: ”کھاؤ اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اعمش کی اس روایت سے جو جعفر بن ایاس کے واسطہ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي بشر جعفر بن أبي وحشية عن أبي المتوكل عن أبي سعيد» کی سند سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2064]