ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ۱؎(بلکہ دیہاتی کو خود بیچنے دے“)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں طلحہ، جابر، انس، ابن عباس، ابویزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور ایک اور صحابی رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1222]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413)، والبیوع 6 (1520)، سنن النسائی/النکاح 20 (3241)، سنن ابن ماجہ/التجارات 15 (2175) (تحفة الأشراف: 13123)، مسند احمد (2/238) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع 64 (2150)، و70 (2160)، و71 (2162)، والشروط 8 (2723)، و 11 (2727)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن النسائی/البیوع 16 (4496)، و19 (4506)، و21 (4510)، مسند احمد (2/274، 394، 487) من غیر ہذا الوجہ (وانظر أیضا حدیث رقم 1134 و 1190) و1222، و1304)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا دلال نہ بنے، کیونکہ ایسا کرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے، اگر باہر سے آنے والا خود بیچتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہو گا۔
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو (ان کا سامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا سامان بیچے، ۴- اور بعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ۵- شافعی کہتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اور اگر وہ بیچ دے تو بیع جائز ہو گی۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1223]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البیوع 6 (1522)، سنن ابن ماجہ/التجارات 15 (2177)، (تحفة الأشراف: 2764)، مسند احمد (3/307) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ البیوع 47 (2442)، سنن النسائی/البیوع 17 (4500)، مسند احمد 3/312، 386، 392) من غیر ہذا الوجہ۔»