سلمہ بن صخر بیاضی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کر لیتا ہے فرمایا: ”اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے تو اس پر دو کفارہ ہے۔ یہ عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1198]
وضاحت: ۱؎: ظہار کا مطلب بیوی سے «أنت علي کظہرامي»(تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کہنا ہے، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، امت محمدیہ میں ایسا کہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے در پے بلا ناغہ دو مہینے کے روزے رکھے اگر درمیان میں بغیر عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے، عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، اور اگر پے در پے دو مہینہ کے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2064)
قال الشيخ زبير على زئي: (1198) إسناده ضعيف / جه 2064 قال البخاري: ” سليمان (بن يسار) لم يسمع عندي من سلمة (بن صخر) “ (سنن الترمذي: 3299) والحديث الآتي (الأصل : 1200) يغني عنه
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا تھا اور پھر اس کے ساتھ جماع کر لیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کر لیا تو کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا؟“ اس نے کہا: میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا) آپ نے فرمایا: ”اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ اسے کر نہ لینا جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1199]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الطلاق 17 (2221، 2222) (مرسلا بدون ذکر ابن عباس و موصولا بذکرہ (برقم: 2223)، سنن النسائی/الطلاق 33 (3487)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 26 (2065)، (تحفة الأشراف: 6036) (صحیح)»