ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا: ابوحمزہ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا: آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عورت اور مرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۱؎۔ اور جب جنازہ سے فارغ ہوئے تو کہا: اس طریقہ کو یاد کر لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور کئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے، لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔ انہوں نے «عن غالب عن أنس» کہا ہے اور صحیح «عن ابی غالب» ہے، عبدالوارث بن سعید اور دیگر کئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے، ۳- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے، ۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
فائدہ ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی نماز جنازہ ہو تو امام اس کی کمر کے پاس کھڑا ہو گا، اور امام کو مرد کے سر کے بالمقابل کھڑا ہونا چاہیئے کیونکہ انس بن مالک نے عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ان کے سر کے پاس ہی کھڑے ہو کر پڑھایا تھا اور علاء بن زیاد کے پوچھنے پر انہوں نے کہا تھا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1034]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الجنائز 57 (3194)، (بزیادة في السیاق)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 21 (1494)، (تحفة الأشراف: 1621)، مسند احمد (3/151) (بزیادة فی السیاق) (صحیح)»
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے بھی اسے حسین المعلم سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1035]