یزید بن شیبان کہتے ہیں: ہمارے پاس یزید بن مربع انصاری رضی الله عنہ آئے، ہم لوگ موقف (عرفات) میں ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جسے عمرو بن عبداللہ امام سے دور سمجھتے تھے ۱؎ تو یزید بن مربع نے کہا: میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تم لوگ مشاعر ۲؎ پر ٹھہرو کیونکہ تم ابراہیم کے وارث ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یزید بن مربع انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ہم صرف ابن عیینہ کے طریق سے جانتے ہیں، اور ابن عیینہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں، ۳- ابن مربع کا نام یزید بن مربع انصاری ہے، ان کی صرف یہی ایک حدیث جانی جاتی ہے، ۴- اس باب میں علی، عائشہ، جبیر بن مطعم، شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 883]
وضاحت: ۱؎: یہ جملہ مدرج ہے عمرو بن دینار کا تشریحی قول ہے۔
۲؎: مشاعر سے مراد مواضع نسک اور مواقف قدیمہ ہیں، یعنی ان مقامات پر تم بھی وقوف کرو کیونکہ ان پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام ہی کے دور سے بطور روایت چلا آ رہا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ - اور یہ «حمس»۱؎ کہلاتے ہیں - مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم تو اللہ کے خادم ہیں۔ (عرفات نہیں جاتے)، اور جوان کے علاوہ لوگ تھے وہ عرفہ میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے آیت کریمہ «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس»”اور تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“(البقرہ: ۱۹۹) نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اہل مکہ حرم سے باہر نہیں جاتے تھے اور عرفہ حرم سے باہر ہے۔ اہل مکہ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم اللہ کے آباد کئے ہوئے لوگ ہیں۔ اور اہل مکہ کے علاوہ لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے حکم نازل فرمایا: «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس»”تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ «حمس» سے مراد اہل حرم ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 884]