علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا:
”یہ عرفہ ہے، یہی وقوف
(ٹھہرنے) کی جگہ ہے، عرفہ
(عرفات) کا پورا ٹھہرنے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تو وہاں سے لوٹے۔ اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اور آپ اپنی عام رفتار سے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہتے جاتے تھے:
”لوگو! سکون و وقار کو لازم پکڑو
“، پھر آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو دونوں نمازیں
(مغرب اور عشاء قصر کر کے) ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی تو آپ قزح
۱؎ آ کر ٹھہرے، اور فرمایا:
”یہ قزح ہے اور یہ بھی موقف ہے اور مزدلفہ پورا کا پورا موقف ہے
“، پھر آپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر
۲؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پار کر لی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اور فضل بن عباس رضی الله عنہما کو
(اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا، پھر آپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر
(قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا:
”یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کا پورا منحر
(قربانی کرنے کی جگہ) ہے
“، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا، اس نے عرض کیا: میرے والد بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہو چکا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کافی ہو گا؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کر لے
“۔ علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی گردن موڑ دی، اس پر آپ سے، عباس رضی الله عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ تو آپ نے فرمایا:
”میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تو میں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا
“ ۳؎، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے سر منڈانے سے پہلے طواف افاضہ کر لیا۔ آپ نے فرمایا:
”سر منڈوا لو یا بال کتروا لو کوئی حرج نہیں ہے
“۔ پھر ایک دوسرے شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی، آپ نے فرمایا:
”رمی کر لو کوئی حرج نہیں
“ ۴؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پر آئے، اور فرمایا:
”بنی عبدالمطلب! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کر دیں گے تو میں بھی
(تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا
“۔
(اور لوگوں کو پلاتے)
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمٰن بن حارث بن عیاش کی سند سے، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کو ملا کر ایک ساتھ پڑھے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: جب آدمی اپنے ڈیرے
(خیمے) میں نماز پڑھے اور امام کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھ لے، جیسا کہ امام نے کیا ہے۔
[سنن ترمذي/كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 885]