عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے، آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی، اپنی چادر پلٹی، اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر بارش کے لیے دعا کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، انس اور آبی اللحم رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 556]
آبی اللحم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احجارزیت ۱؎ کے پاس اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اٹھائے دعا فرما رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قتیبہ نے اس حدیث کی سند میں اسی طرح «عن آبی اللحم» کہا ہے اور ہم اس حدیث کے علاوہ ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو ۲- عمیر، آبی اللحم رضی الله عنہ کے مولیٰ ہیں، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اور انہیں خود بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 557]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الاستسقاء 9 (1515)، (وہو عند أبي داود في الصلاة 260 (1168)، واحمد (5/223) من حدیث عمیر نفسہ/التحفة: 10900) (تحفة الأشراف: 5) (صحیح)»
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو میں ان کے پاس آیا (اور میں نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے، یہاں تک کہ عید گاہ آئے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعا کرنے، گڑگڑانے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آپ عید میں پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 558]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصلاة 258 (1165)، سنن النسائی/الاستسقاء 3 (1507)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 153 (1166)، (تحفة الأشراف: 5359)، مسند احمد (1/230، 269، 355) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اسی سے امام شافعی وغیرہ نے دلیل پکڑی ہے کہ استسقاء میں بھی بارہ تکبیرات زوائد سے دو رکعتں پڑھی جائیں گی، جبکہ جمہور نماز جمعہ کی طرح پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث میں «كما يصلي في العيد» سے مراد یہ بیان کیا ہے کہ جیسے: آبادی سے باہر جہری قراءت سے خطبہ سے پہلے دو رکعت عید کی نماز پڑھی جاتی ہے، اور دیگر احادیث وآثار سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے، صاحب تحفہ نے اسی کی تائید کی ہے۔
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے روایت ہے، آگے انہوں نے اسی طرح ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے لفظ «منخشعاً» کا اضافہ کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہی شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز استسقاء عیدین کی نماز کی طرح پڑھی جائے گی۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ، اور انہوں نے ابن عباس کی حدیث سے استدلال کیا ہے، ۳- مالک بن انس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ استسقاء میں عیدین کی نماز کی تکبیروں کی طرح تکبیریں نہیں کہے گا، ۴- ابوحنیفہ نعمان کہتے ہیں کہ استسقاء کی کوئی نماز نہیں پڑھی جائے گی اور نہ میں انہیں چادر پلٹنے ہی کا حکم دیتا ہوں، بلکہ سارے لوگ ایک ساتھ دعا کریں گے اور لوٹ آئیں گے، ۵- ان کا یہ قول سنت کے مخالف ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 559]