انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کتنے دن رہے، انہوں نے کہا دس دن ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ابن عباس رضی الله عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے سفر میں انیس دن ٹھہرے اور دو رکعتیں ادا کرتے رہے۔ ابن عباس کہتے ہیں، چنانچہ جب ہم انیس دن یا اس سے کم ٹھہرتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرتے تو پوری پڑھتے، ۴- علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو دس دن ٹھہرے وہ پوری نماز پڑھے، ۵- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو پندرہ دن قیام کرے وہ پوری نماز پڑھے۔ اور ان سے بارہ دن کا قول بھی مروی ہے، ۶- سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب چار دن قیام کرے تو چار رکعت پڑھے۔ ان سے اسے قتادہ اور عطا خراسانی نے روایت کیا ہے، اور داود بن ابی ہند نے ان سے اس کے خلاف روایت کیا ہے، ۷- اس کے بعد اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہو گیا۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن کی تحدید کی طرف گئے اور ان لوگوں نے کہا کہ جب وہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کر لے تو پوری نماز پڑھے، ۸- اوزاعی کہتے ہیں: جب وہ بارہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے، ۹- مالک بن انس، شافعی، اور احمد کہتے ہیں: جب چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے، ۱۰- اور اسحاق بن راہویہ کی رائے ہے کہ سب سے قوی مذہب ابن عباس کی حدیث ہے، اس لیے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، پھر یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اس پر عمل پیرا رہے جب وہ انیس دن ٹھہرتے تو نماز پوری پڑھتے۔ پھر اہل علم کا اجماع اس بات پر ہو گیا کہ مسافر جب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصر کرتا رہے، اگرچہ اس پر کئی سال گزر جائیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 548]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 1 (1081)، والمغازي 52 (4299)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (693)، سنن ابی داود/ الصلاة 279 (1233)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1439)، و4 (1453)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1077)، (تحفة الأشراف: 1652)، مسند احمد (3/181، 190)، سنن الدارمی/الصلاة 180، 1550) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے، آپ اس موقع سے ۴ ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے، ۸ کو منی کو نکل گئے، پھر ۱۴ کو طواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے، مگر ان دس دنوں میں مستقل طور پر آپ صرف ۴ دن مکہ میں رہے، باقی دنوں میں ادھر ادھر منتقل ہی ہوتے رہے، اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب ۴ دنوں کی اقامت کی نیت کر لے تب پوری نماز پڑھے۔
۲؎: حجۃ الوداع، فتح مکہ، یا جنگ پرموک میں یہی ہوا تھا، اس لیے آپ نے ۱۷، ۱۸ دنوں یا دس دنوں تک قصر کیا، اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ ۴ دنوں سے زیادہ اقامت کی اگر نیت بن جائے تو قصر نہ کرے، مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہو جاتے۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا، تو آپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ۱؎، ابن عباس کہتے ہیں: تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں دو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 549]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 1 (1080)، والمغازی 52 (4298)، سنن ابی داود/ الصلاة 279 (1230)، (بلفظ ”سبعة عشر“ وشاذ)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1075)، (تحفة الأشراف: 6134) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے، اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بخاری کی روایت میں انیس دن کا ذکر ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں اٹھارہ اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے، جس نے دخول کا شمار کیا خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے، رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ۱۷ دن پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ۱۵ دن کی روایت ہے۔