زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «وقوموا لله قانتين»”اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو“ نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں قصداً یا بھول کر گفتگو کر لے تو نماز دہرائے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ جب نماز میں قصداً گفتگو کرے تو نماز دہرائے اور اگر بھول سے یا لاعلمی میں گفتگو ہو جائے تو نماز کافی ہو گی، ۴- شافعی اسی کے قائل ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 405]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العمل فی الصلاة 2 (1200)، وتفسیر البقرة 42 (4534)، صحیح مسلم/المساجد 7 (539)، سنن ابی داود/ الصلاة 178 (949)، سنن النسائی/السہو20 (1220)، (تحفة الأشراف: 3661)، مسند احمد (4/368)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة برقم: 2986) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے، بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ ”بشرطیکہ تھوڑی ہو“ ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (875) ، الإرواء (393)