عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چھوٹی بچی کے مرنے کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اپنی گود میں) لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا، پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی مر گئی، ام ایمن رضی اللہ عنہا رونے لگیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”ام ایمن! تم رو رہی ہو جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس موجود ہیں؟“ تو انہوں نے کہا: میں کیوں نہ روؤں جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (خود) رو رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں رو نہیں رہا ہوں، البتہ یہ اللہ کی رحمت ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ہر حال میں اچھا ہے، اس کی دونوں پسلیوں کے بیچ سے اس کی جان نکالی جاتی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا رہتا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1844]
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر رونے لگیں، اور کہنے لگیں: ہائے، ابا جان! آپ اپنے رب سے کس قدر قریب ہو گئے، ہائے، ابا جان! مرنے کی خبر ہم جبرائیل علیہ السلام کو دے رہے ہیں، ہائے، ابا جان! آپ کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1845]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 487)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي 83 (4462)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 65 (1630)، مسند احمد 3/197 (صحیح)»
جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد کے دن قتل کر دیئے گئے، میں ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانے اور رونے لگا، لوگ مجھے روک رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں روک رہے تھے، میری پھوپھی (بھی) ان پر رونے لگیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان پر مت روؤ، فرشتے ان پر برابر اپنے پروں سے سایہ کیے رہے یہاں تک کہ تم لوگوں نے اٹھایا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1846]
وضاحت: ۱؎: ان احادیث سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہو رہا ہے، رہیں وہ روایتیں جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ اس رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔