الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب صلاة العيدين
کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
22. بَابُ: كَيْفَ الْخُطْبَةُ؟
22. باب: عیدین کا خطبہ کیسا ہو؟
حدیث نمبر: 1579
أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ , ثُمَّ يَقُولُ:" مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ , وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ , وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا , وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ" , ثُمَّ يَقُولُ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ" وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ السَّاعَةَ احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ وَعَلَا صَوْتُهُ وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ كَأَنَّهُ نَذِيرُ جَيْشٍ يَقُولُ: صَبَّحَكُمْ مَسَّاكُمْ , ثُمَّ قَالَ:" مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ أَوْ عَلَيَّ , وَأَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جو اس کی شایان شان ہوتی، پھر آپ فرماتے: جسے اللہ راہ دکھائے تو کوئی اسے گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے گمراہ کر دے تو اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بدترین کام نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے، پھر آپ فرماتے: میں اور قیامت دونوں اس قدر نزدیک ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہیں، اور جب آپ قیامت کا ذکر کرتے تو آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو جاتے، اور آواز بلند ہو جاتی، اور آپ کا غصہ بڑھ جاتا جیسے آپ کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں، اور کہہ رہے ہوں: (ہوشیار رہو! دشمن) تم پر صبح میں حملہ کرنے والا ہے، یا شام میں، پھر آپ فرماتے: جو (مرنے کے بعد) مال چھوڑے تو وہ اس کے گھر والوں کا ہے، اور جو قرض چھوڑے یا بال بچے چھوڑ کر مرے تو وہ میری طرف یا میرے ذمہ ہیں، اور میں مومنوں کا ولی ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1579]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الجمعة 13 (867)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (45)، مسند احمد 3/310، 311، 319، 337، 371، سنن الدارمی/المقدمة 23 (212)، (تحفة الأشراف: 2599) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی جن کا کفیل کوئی نہیں ان کا کفیل میں ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم