جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جو اس کی شایان شان ہوتی، پھر آپ فرماتے: ”جسے اللہ راہ دکھائے تو کوئی اسے گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے گمراہ کر دے تو اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بدترین کام نئے کام ہیں، اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے“، پھر آپ فرماتے: ”میں اور قیامت دونوں اس قدر نزدیک ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہیں“، اور جب آپ قیامت کا ذکر کرتے تو آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو جاتے، اور آواز بلند ہو جاتی، اور آپ کا غصہ بڑھ جاتا جیسے آپ کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں، اور کہہ رہے ہوں: (ہوشیار رہو! دشمن) تم پر صبح میں حملہ کرنے والا ہے، یا شام میں، پھر آپ فرماتے: ”جو (مرنے کے بعد) مال چھوڑے تو وہ اس کے گھر والوں کا ہے، اور جو قرض چھوڑے یا بال بچے چھوڑ کر مرے تو وہ میری طرف یا میرے ذمہ ہیں، اور میں مومنوں کا ولی ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1579]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1579
1579۔ اردو حاشیہ: ➊ ضروری نہیں کہ ہر خطبے میں یہی الفاظ اور مضمون ہو اور نہ یہ ممکن اور مناسب ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ خطبہ اس قسم کا ہونا چاہیے، یعنی اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی خطبے کا لازمی جزو ہے۔ لوگوں کو شریعت حقہ کی پابندی اور بدعات سے احتراز کی طرف توجہ دلائی جائے۔ ان کواللہ تعالیٰ اور قیامت سے ڈرایا جائے اور ضروری مسائل بیان کیے جائیںَ عنوان اور مضمون کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ➋ ”بدعت“ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کی سرے سے کوئی اصل شریعت اسلامیہ میں نہ ہو اور اسے اپنی طرف سے یا کسی دوسرے مذہب والوں کی نقالی میں اسلام میں داخل کیا جائے اور اسے دین اسلام کا جزو یا کارِ ثواب خیال کیا ہے۔ یا اس کی اصل تو موجود ہو لیکن اس کے لیے ایسی کیفیت، کوئی وقت یا صورت اختراع کر لی جائے کہ جس کی شرع میں دلیل نہ ہو تو وہ بھی بدعت ہی ہو گی۔ دنیوی امور میں کوئی نئی چیز اختیار کرنا بدعت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کی جماعت کو «انعمت البدعۃ»(صحیح البخاری، صلاۃ التراویح، حدیث: 2010) کہنا لغت کے لحاظ سے ہے نہ کہ شرعاً۔ اسی طرح بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ بھی غلط ہے کیونکہ ہر شرعی بدعت گمراہی ہے، ا س کا مستحسن ہونا ممکن نہیں، تاہم اگر کوئی کام اصلاً شرع میں ثابت ہو مگر وصفاً ثابت نہ ہو، مثلاً: جماعت کے بعد شرعی حکم نہ سمجھ کر محض اتفاقیہ طور پر امام صاحب سے مصافحہ کرنا یا عید کے بعد گلے ملنا وغیرہ، تو ایسے کاموں کو بدعت نہیں کہا جائے گا کیونکہ انہیں سنت سمجھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ ایک قومی رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ تشدد کرتے ہوئے یہ فرق نہیں کرتے۔ ➌ ”ان دو انگلیوں کی طرح“ مراد یہ ہے کہ میری نبوت قیامت تک جاری رہے گی۔ اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی اور شریعت۔ میں پہلے آگیا ہوں۔ قیامت میرے بعد آرہی ہے۔ درمیان میں کسی اور نبی کا فاصلہ نہیں۔ اگرچہ اس میں ہزاروں سال لگ جائیں۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مومنین سے تعلق تمام رشتوں سے قوی اور مضبوط ہے۔ ہر رشتہ آپ پر فدا ہے۔ آپ سے محبت ایمان کا جزو ہے۔ یہ اٹوٹ رشتہ ہے۔ دنیا کے بعد آخرت میں بھی اور ہر خوف ناک موقع پر بھی قائم رہے گا۔ رسول اور نبی ہونے کے علاوہ آپ حاکم اور امیر بھی تھے اور حاکم و امیر اپنی رعایا کاذمے دار ہوتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ اخراجات بیت المال سے پورے کیے جائیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1579