عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بازار میں موٹے ریشمی کپڑے کا ایک جوڑا (بکتے ہوئے) پایا، تو اسے لیا، اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اسے خرید لیں، اور عید کے لیے اور وفود سے ملتے وقت اسے پہنیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا، یا اسے تو وہی پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا“، تو عمر رضی اللہ عنہ ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس باریک ریشمی کپڑے کا ایک جبہ بھیجا، تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا کہ یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں، پھر آپ نے اسے میرے پاس بھیج دیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بیچ دو، اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1561]
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ میں نے اسے تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ تم خود اسے پہنو، بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ بیچ کر تم اس کی قیمت اپنی ضرورت میں صرف کرو۔