رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آ گئی، تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى»”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ کہا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے کیسے کہا تھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا تھا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى»”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے“۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 932]
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے اللہ اکبر کہا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے نیچے تک اٹھایا، پھر جب آپ نے «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہا تو آپ نے آمین کہی جسے میں نے سنا، اور میں آپ کے پیچھے تھا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہتے سنا، تو جب آپ اپنی نماز سے سلام پھیر لیا تو پوچھا: ”نماز میں کس نے یہ کلمہ کہا تھا؟“ تو اس شخص نے کہا: میں نے اللہ کے رسول! اور اس سے میں نے کسی برائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر بارہ فرشتے جھپٹے تو اسے عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز روک نہیں سکی“۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 933]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: 11764)، مسند احمد 4/315، 317 (صحیح) (اس سند میں عبدالجبار اور ان کے باپ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن’’فما نھنھھا۔۔۔“کے جملے کے علاوہ اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر بقیہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہی، رہا بعض حاشیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ پہلی صف والوں کے بالخصوص ایسے شخص سے سننے سے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پیچھے ہو جہر لازم نہیں آتا، تو یہ صحیح نہیں کیونکہ صاحب ہدایہ نے یہ تصریح کی ہے کہ جہر یہی ہے کہ کوئی دوسرا سن لے، اور کرخی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہر کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ بولنے والا آدمی خود اسے سنے، رہی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی خفض والی روایت تو شعبہ نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں، جس کی تفصیل سنن ترمذی حدیث رقم (۲۴۸) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره دون قوله فما نهنهها
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (3802،855) عبد الجبار بن وائل عن أبيه منقطع. وأبو إسحاق عنعن. وفي الباب أحاديث أخري مغنية عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 328