وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے اللہ اکبر کہا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے نیچے تک اٹھایا، پھر جب آپ نے «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہا تو آپ نے آمین کہی جسے میں نے سنا، اور میں آپ کے پیچھے تھا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہتے سنا، تو جب آپ اپنی نماز سے سلام پھیر لیا تو پوچھا: ”نماز میں کس نے یہ کلمہ کہا تھا؟“ تو اس شخص نے کہا: میں نے اللہ کے رسول! اور اس سے میں نے کسی برائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر بارہ فرشتے جھپٹے تو اسے عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز روک نہیں سکی“۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 933]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: 11764)، مسند احمد 4/315، 317 (صحیح) (اس سند میں عبدالجبار اور ان کے باپ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن’’فما نھنھھا۔۔۔“کے جملے کے علاوہ اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر بقیہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہی، رہا بعض حاشیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ پہلی صف والوں کے بالخصوص ایسے شخص سے سننے سے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پیچھے ہو جہر لازم نہیں آتا، تو یہ صحیح نہیں کیونکہ صاحب ہدایہ نے یہ تصریح کی ہے کہ جہر یہی ہے کہ کوئی دوسرا سن لے، اور کرخی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہر کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ بولنے والا آدمی خود اسے سنے، رہی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی خفض والی روایت تو شعبہ نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں، جس کی تفصیل سنن ترمذی حدیث رقم (۲۴۸) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره دون قوله فما نهنهها
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (3802،855) عبد الجبار بن وائل عن أبيه منقطع. وأبو إسحاق عنعن. وفي الباب أحاديث أخري مغنية عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 328
الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه فلما سلم النبي من صلاته قال من صاحب الكلمة في الصلاة فقال الرجل أنا يا رسول الله وما أردت بها بأسا قال النبي لقد ابتدرها اثنا عشر ملكا فما نهنهها شيء دون العرش
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 933
933 ۔ اردو حاشیہ: ➊ محققین نے مذکورہ روایت کے آخری جملے: «فَمَا نَهْنَهَهَا شَيْءٌ دُونَ الْعَرْشِ» کے سوا باقی روایت کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ محقق کتاب اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ بنابریں آخری جملے کے سوا باقی روایت صحیح اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ یہ دو مختلف واقعات معلوم ہوتے ہیں۔ پچھلی حدیث میں رکوع کے بعد والا واقعہ ہے اور اس میں تکبیر تحریمہ کے بعد ان کلمات کا ورود ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ان دونوں کو ایک ہی واقعہ شمار کرنا تکلف ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 933
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3802
´اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے والوں کی فضیلت۔` وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، ایک شخص نے ( «سمع الله لمن حمده» کے بعد) «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کلمہ کس نے کہا؟ اس شخص نے عرض کیا: میں نے یہ کلمہ کہا اور اس سے میری نیت خیر کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کلمہ کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور اس کلمے کو عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز نہیں روک سکی۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3802]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے، تا ہم اسی مفہوم کی صحیح احادیث حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت انس ؓ سے مروی ہیں، البتہ ان میں یہ جملہ نہیں ہے: ”ان (الفاظ) کے عرش تک پہنچنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنی۔“
(2) صحیح مسلم میں حضرت انس ؓسے مروی روایت میں یہ الفاظ ہیں: “میں نے بارہ فرشتے ان کلمات کے ساتھ جلدی کرتے ہوئے دیکھے کہ انہیں کون (پہلے لکھ کر پہلے) اوپر لے جاتا ہے۔“(صحيح مسلم، المساجد، باب ما يقال بين التكبيرة الإحرام والقراءة، حديث: 600) آسمان کے دروازے کھلنے کے الفاظ دوسرے کلمات کے بارے میں ہیں جو اس طرح ہیں: (اللهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيْرًا وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلاً) یہ حدیث حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے۔ (صحيح مسلم، المساجد، باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقراءة، حديث: 601)
(3) فرشتوں کا ان کلمات کو جلد لکھنے کی کوشش کرنا ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3802