عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 602]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (705)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1210)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/السفر 1 (4)، (تحفة الأشراف: 5608)، مسند احمد 1/283، 349 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدید ضرورت کے وقت مقیم بھی جمع بین الصلاتین کر سکتا ہے لیکن یہ عادت نہ بنا لی جائے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے، ان سے پوچھا گیا: آپ ایسا کیوں کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: تاکہ آپ کی امت کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 603]
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دو نمازوں کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہو گیا“ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لیے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہو سکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں، اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں ملا کر پڑھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 604]