عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: میں جنبی ہو گیا ہوں، اور مجھے پانی نہیں ملا (کیا کروں؟) تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (جب تک پانی نہ ملے) تم نماز نہ پڑھو، اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں؟ جب میں اور آپ دونوں ایک سریہ میں تھے، تو ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں نے نماز پڑھ لی، تو جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا“، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنے دونوں ہاتھ مارے، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا۔ سلمہ نے شک کیا اور کہا: مجھے نہیں معلوم کہ (میرے شیخ ذر نے دونوں کہنیوں تک مسح کا ذکر کیا یا دونوں ہتھیلیوں تک)۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سلسلہ میں جو تم کہہ رہے ہو اس کی ذمہ داری ہم تمہارے ہی سر ڈالتے ہیں شعبہ کہتے ہیں: سلمہ دونوں ہتھیلیوں، چہرے اور دونوں بازؤوں کا ذکر کر رہے تھے، تو منصور نے ان سے کہا: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کے سوا کسی اور نے بازؤوں کا ذکر نہیں کیا ہے، تو سلمہ شک میں پڑ گئے اور کہنے لگے مجھے نہیں معلوم کہ (ذر نے) بازؤوں کا ذکر کیا یا نہیں؟۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 320]