ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کا قتل جائز نہیں ہے مگر جب تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہو ۱؎: شادی شدہ ہو کر زنا کرے تو اسے رجم کیا جائے گا، کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر (ناحق) قتل کرے، کوئی اسلام سے نکل جائے اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ جنگ بناتا پھرے، تو اسے قتل کیا جائے گا، یا سولی پر چڑھایا جائے گا، یا پھر جلا وطن کیا جائے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4747]
وضاحت: ۱؎: اور ان تین صورتوں میں ”کافر کے بدلے مسلم کو قتل کرنے کی بات نہیں ہے“ اسی سے مؤلف کا باب پر استدلال ہے، جو بہرحال مبہم ہے، لیکن اگلی حدیث اس باب میں بالکل واضح ہے۔ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی، یہی جمہور علماء امت کا قول ہے۔ البتہ ذمی کے قتل کا گناہ بہت ہی زیادہ ہے، دیکھئیے اگلی حدیث۔
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ پوچھا، ہم نے کہا: کیا آپ کے پاس قرآن کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کو جو قرآن کی سمجھ دیدے، یا جو اس صحیفہ میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں دیت کے احکام ہیں، قیدیوں کو چھوڑنے کا بیان ہے، اور یہ حکم ہے کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4748]
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی بات نہیں بتائی سوائے اس کے جو میری تلوار کی نیام میں رکھے اس صحیفہ میں ہے، لوگوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے وہ صحیفہ نکالا، اس میں لکھا تھا: ”سب مسلمانوں کے خون برابر ہیں، ان کا ادنیٰ اور معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے، اور وہ اپنے دشمن کے خلاف ایک ہاتھ کی طرح (متحد) ہیں، کسی کافر کے بدلے کوئی مومن نہیں مارا جائے گا، اور نہ کوئی ذمی جب تک وہ ذمہ میں رہے“۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4749]
اشتر کہتے ہیں کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں میں مشہور ہو رہی ہیں جو وہ سن رہے ہیں، لہٰذا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کوئی بات کہی ہو تو اسے بیان کر دیجئیے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی بات ایسی نہیں بتائی جو لوگوں کو نہ بتائی ہو، سوائے اس کے جو ایک صحیفہ میری تلوار کی نیام میں ہے، اس میں لکھا ہے: ”مومنوں کا خون برابر ہے، ان کا معمولی آدمی بھی کسی کا ذمہ لے سکتا ہے، کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی ذمی جب تک وہ عہد پر قائم رہے“۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4750]