عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قریظہ اور نضیر یہودیوں کے دو قبیلے تھے، بنو نضیر بنو قریظہ سے بڑھ کر تھے، جب بنو قریظہ کا کوئی شخص بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دیتا تو وہ اس کے بدلے قتل کر دیا جاتا، اور جب بنو نضیر کا کوئی شخص بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کرتا تو وہ سو وسق کھجور ادا کر دیتا، لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بنا کر بھیجے گئے تو بنو نضیر کے ایک شخص نے بنو قریظہ کے ایک شخص کو قتل کر دیا تو ان لوگوں نے کہا: اسے (قاتل کو) ہمارے حوالے کرو ہم اسے قتل کریں گے، انہوں (بنو نضیر) نے کہا: ہمارے اور تمہارے درمیان ثالث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے، چنانچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو یہ آیت: «وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط»”اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو“(المائدہ: ۴۰) نازل ہوئی، «قسط» یعنی انصاف کا مطلب ہے جان کے بدلے جان لی جائے، پھر یہ آیت «أفحكم الجاهلية يبغون»”کیا یہ لوگ جاہلیت کا انصاف پسند کرتے ہیں“(المائدہ: ۵۰) نازل ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4736]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الدیات 1 (4494)، (تحفة الأشراف: 6109) (صحیح) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے، مگر اگلی سند میں سماک کے متابع ”داود بن حسین“ ہیں، اس کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4494) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 356
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مائدہ کی وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فاحكم بينهم أو أعرض عنهم» سے «المقسطين»، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے درمیان ایک دیت کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں، وجہ یہ تھی کہ بنو نضیر کے مقتولین کو برتری حاصل ہونے کی وجہ سے ان کی پوری دیت دے دی جاتی تھی اور بنو قریظہ کو آدھی دیت دی جاتی تھی، اس سلسلے میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان کے سلسلے میں نازل فرمایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سلسلہ میں حق کی ترغیب دلائی اور دیت برابر کر دی۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4737]