جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی ۱؎ اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا، سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حماد بن سلمہ سے حجاج (حجاج بن محمد) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4300]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2697)، ویأتي عند المؤلف في البیوع 90 (برقم: 4672) (صحیح) ’’إلا کلب صید‘‘ کا جملہ امام نسائی کے یہاں صحیح نہیں ہے، لیکن البانی صاحب نے طرق اور شواہد کی روشنی میں اس کو بھی صحیح قرار دیا ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی 2971، 2990، وتراجع الالبانی 226)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ بلی سے کوئی ایسا فائدہ جو مقصود ہو حاصل ہونے والا نہیں اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے اور یہی اس کے حرام ہونے کی علت اور اس کا سبب ہے۔ ۲؎: اس کے راوی ”ابوالزبیر“ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یہ لفظ مسلم کی روایت میں ہے بھی نہیں ہے، انہیں اسباب و وجوہ سے بہت سے ائمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئیے فتح الباری (۴/۴۲۷) اور التعلیقات السلفیہ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحديث الآتي (4672) أبو الزبير عنعن. وللحديث شواهد ضعيف،ة. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 353
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ“۔ میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ اسے قتل کر ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ قتل کر ڈالیں“، اس نے کہا: (میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہٰذا) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے، آپ نے فرمایا: ”جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ“، اس نے کہا: اگر وہ (شکار تیر کھا کر) غائب ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ وہ غائب ہو جائے، جب تک کہ تم اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی چیز کا نشان نہ پاؤ یا اس میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو“۱؎۔ ابن سواء کہتے ہیں: میں نے اسے ابو مالک عبیداللہ بن اخنس سے سنا ہے وہ اسے بسند عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4301]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8758)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصید2(2857)، مسند احمد (2/184) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مؤلف نے باب پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب شکار کے لیے کتے استعمال کرنے کی رخصت ہے تو بھر اس کی خرید و فروخت کی بھی رخصت ہے، لیکن جمہور اس استدلال کے خلاف ہیں، پچھلی احادیث میں صراحت ہے کہ کتے کی قیمت لینی دینی حرام ہے۔