عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ فرمایا:) … ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3451]
عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آ کر کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس (قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو)، میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے وہیں رہو۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3452]
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے (اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے ۱؎، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں ۲؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو بلکہ اس سے الگ تھلگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور انہیں کے ساتھ رہو، تو وہ ان کے پاس جا کر رہنے لگی۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3453]
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا قصہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے اور شریک نہ ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے ذکر کرنے کے دوران انہوں نے بتایا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، میں نے (اس سے) کہا: میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: (طلاق نہ دو) بلکہ اس سے الگ رہو اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) ایسا ہی پیغام دے کر بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ رہو اور اس وقت تک رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں اپنا فیصلہ نہ سنا دے۔ معقل بن عبیداللہ نے ان سب کے خلاف ذکر کیا ہے (تفصیل آگے حدیث میں آ رہی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3454]
عبیداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں (پیچھے رہ جانے والے) ساتھیوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہو جاؤ، میں نے پیغام لانے والے سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو، بلکہ اس سے الگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ، (یہ سن کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور جب تک اللہ عزوجل فیصلہ نہ کر دے انہیں لوگوں میں رہو، تو بیوی انہیں لوگوں کے پاس جا کر رہنے لگی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) معمر نے معقل کے خلاف ذکر کیا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3455]
وضاحت: ۱؎: اشارہ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ معقل اور معمر دونوں امام زہری کے شاگرد ہیں۔ معقل نے اس روایت میں «لاتقربھا» کے بعد «فقلت لامرأتی الحقی باھلک ……» ذکر کیا ہے۔ لیکن معمر نے اپنی روایت میں جو اب آ رہی ہے اور ان کے استاد زہری ہی کے واسطہ سے آ رہی ہے «لاتقربھا» کے بعد «فقلت لامرأتی الحقی باھلک …» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واقعے کے ذکر میں بتایا: اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا تم اپنی بیوی سے جدا ہو جاؤ، میں نے اس سے کہا: میں اسے طلاق دے دوں، اس نے کہا نہیں، طلاق نہ دو، لیکن اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس حدیث میں انہوں نے «الحقی باھلک» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3456]