عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ کر کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے مسئلہ پوچھا (کہ کیا اس کی طلاق صحیح ہوئی ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ سے کہو (طلاق ختم کر کے) اسے لوٹا لے (یعنی اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے اپنے اس حیض سے پاک ہو لینے دے، پھر جب وہ دوبارہ حائضہ ہو اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو وہ اگر اسے چھوڑ دینا چاہے تو اسے جماع کرنے سے پہلے چھوڑ دے اور اگر اسے رکھنا چاہے تو اسے رکھ لے (اور اس سے اپنی ازدواجی زندگی بحال کرے) یہ ہے وہ عدت جس کے مطابق اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3418]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ سے کہو کہ اس سے رجوع کر لے (یعنی طلاق ختم کر کے اسے اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے روکے رکھے جب تک کہ وہ حیض سے پاک نہ ہو جائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہو (جب وہ دوبارہ حیض سے پاک ہو جائے) تو چاہے تو اسے روک لے اور چاہے تو اسے چھونے (اس کے پاس جانے اور اس سے صحبت کرنے) سے پہلے اسے طلاق دیدے۔ یہی وہ عدت ہے جسے ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3419]
زبیدی کہتے ہیں: امام زہری سے پوچھا گیا: عدت والی طلاق کس طرح ہوتی ہے؟ (اشارہ ہے قرآن کریم کی آیت: «فطلقوهن لعدتهن»(الطلاق: 1) کی طرف) تو انہوں نے کہا: سالم بن عبداللہ بن عمر نے انہیں بتایا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی، اس بات کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصہ ہوئے اور فرمایا: ”اسے رجوع کر لینا چاہیئے، پھر اسے روکے رکھے رہنا چاہیئے یہاں تک کہ (پھر) اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اگر اسے طلاق دے دینا ہی مناسب سمجھے تو طہارت کے ایام میں طلاق دیدے ہاتھ لگانے سے پہلے“۔ عدت والی طلاق کا یہی طریقہ ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے اسے لوٹا لیا اور جو طلاق میں اسے دے چکا تھا اسے بھی شمار کر لیا (کیونکہ ان کے خیال میں وہ طلاق اگرچہ سنت کے خلاف اور حرام تھی پروہ پڑ گئی تھی)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3420]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الطلاق 1 (1471)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق 1 (4908)، والأحکام 13 (7160)، سنن ابی داود/الطلاق 4 (2181)، سنن الترمذی/الطلاق 1 (1175)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 3 (2109)، مسند احمد 2/26، 58، 61، 81، 130 (صحیح)»
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کرتے سنا: آپ کی کیا رائے ہے ایسے شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی؟ انہوں نے جواب دیا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس وقت طلاق دی جب وہ حیض سے تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتاتے ہوئے مسئلہ پوچھا کہ عبداللہ بن عمر کی بیوی حالت حیض میں تھی اس نے اسے اسی حالت میں طلاق دے دی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ کو چاہیئے کہ وہ اس سے رجوع کرے“، اور پھر آپ نے میری بیوی میرے پاس بھیج دی اور فرمایا: ”جب وہ حیض سے پاک و صاف ہو جائے تب اسے یا تو طلاق دیدے یا اسے روک لے“(اسے دونوں کا اختیار ہے جیسی اس کی مرضی و پسند ہو)۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (اس کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن»”اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو“(الطلاق: ۱)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3421]
مجاہد (اپنے استاذ) ابن عباس رضی الله عنہما سے اللہ تعالیٰ کے قول «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن» یعنی ”جب عورت حیض سے پاک ہو جائے اور اس سے اس طہر میں صحبت بھی نہ کی جائے تب طلاق دینی چاہیئے“ کے سلسلے میں روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «لعدتهن» کی جگہ «قبل عدتهن» پڑھا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3422]