عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2943]
وضاحت: ۱؎: «اصیلع»: «اصلع» کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑ گئے ہوں اس کو «اصلع» کہتے ہیں۔ ۲؎: کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجر اسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگر میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھر دوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہو گا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزرا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھوکہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کر دیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پتھر قیامت کے دن آئے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ رہا ہو گا، ایک زبان ہو گی جس سے وہ بول رہا ہو گا، اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہو گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2944]
وضاحت: ۱؎: یعنی ایمان کے ساتھ، اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے شرک کی حالت میں حجر اسود کو چوما ان کے لیے اس کا چومنا کچھ مفید نہ ہوگا اس لیے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عبادت نفع بخش اور مفید نہیں ہوتی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی طرف رخ کیا، پھر اپنے دونوں ہونٹ اس پر رکھ دئیے، اور دیر تک روتے رہے، پھر ایک طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی رو رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2945]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8441، ومصباح الزجاجة: 1036) (ضعیف جدا)» (سند میں محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث و منکر الحدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1111)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا محمد بن عون: متروك (تقريب: 6203) والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2946]
وضاحت: ۱؎: طواف کرنے والے کو اختیار ہے کہ تین باتوں میں سے جو ممکن ہو سکے کرے ہر ایک کافی ہے، حجر اسود کا چومنا، یا اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو چومنا، یا لکڑی اور چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرنا، اور اگر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے چومنا یا چھونا مشکل ہو تو صرف ہاتھ سے اشارہ کرنا ہی کافی ہے، اور ہر صورت میں لوگوں کو ایذاء دینا اور دھکیلنا منع ہے جیسے کہ اس زمانے میں قوی اور طاقتور لوگ کرتے ہیں، یا عورتوں کے درمیان گھسنا۔