الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
31. بَابُ: التَّحْرِيقِ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ
31. باب: دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2843
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سَمُرَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا: أُبْنَى، فَقَالَ: ائْتِ أُبْنَى صَبَاحًا ثُمَّ حَرِّقْ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ابنیٰ نامی بستی کی جانب بھیجا اور فرمایا: ابنیٰ میں صبح کے وقت جاؤ، اور اسے آگ لگا دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2843]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجہاد 91 (2616)، (تحفة الأشراف: 107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/205، 209) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (صالح بن أبی الاخضر ضعیف ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے)

وضاحت: ۱؎ اُبنی: فلسطین میں عسقلان اور رملہ کے درمیان ایک مقام ہے، صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک لشکر میں بھیجا، تو فرمایا: اگر تم فلاں فلاں دو شخصوں کو پاؤ تو آگ سے جلا دینا، پھر جب ہم نکلنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو حکم دیا تھا فلانے فلانے کو جلانے کا، لیکن آگ سے اللہ ہی عذاب کرتا ہے تم اگر ان کو پاؤ تو قتل کر ڈالنا، لیکن درختوں کا اور بتوں کا اور سامان کا جلانا تو جائز ہے، اور کئی احادیث سے اس کی اجازت ثابت ہے جب اس میں مصلحت ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2616)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 481

حدیث نمبر: 2844
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً سورة الحشر آية 5، الْآيَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحرث والمزارعة 4 (2356)، الجہاد 154 (3020)، المغازي 14 (4031)، صحیح مسلم/الجہاد 10 (1746)، سنن ابی داود/الجہاد 91 (2615)، سنن الترمذی/التفسیر 59 (3302، السیر 4 (1552)، (تحفة الأشراف: 8267)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/123، 140)، سنن الدارمی/السیر 23 (2503) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 2845
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ، وَفِيهِ، يَقُولُ شَاعِرُهُمْ: فَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کے درخت جلا دئیے اور انہیں کاٹ دیا، اسی سے متعلق ایک شاعر کہتا ہے: «فهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير» بنی لؤی کے سرداروں کے لیے آسان ہوا، بویرہ میں آگ لگانا جو ہر طرف پھیلتی جا رہی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2845]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «أنظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: 8060) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم