قیس بن رومی کہتے ہیں کہ سلیمان بن اذنان نے علقمہ کو ان کی تنخواہ ملنے تک کے لیے ایک ہزار درہم قرض دے رکھا تھا، جب ان کی تنخواہ ملی تو سلیمان نے ان سے اپنے قرض کا تقاضا کیا، اور ان پر سختی کی، تو علقمہ نے اسے ادا کر دیا، لیکن ایسا لگا کہ علقمہ ناراض ہیں، پھر کچھ مہینے گزرے تو پھر وہ سلیمان بن اذنان کے پاس آئے، اور کہا: میری تنخواہ ملنے تک مجھے ایک ہزار درہم کا پھر قرض دے دیجئیے، وہ بولے: ہاں، لے لو، یہ میرے لیے عزت کی بات ہے، اور ام عتبہ کو پکار کر کہا: وہ مہر بند تھیلی لے آؤ جو تمہارے پاس ہے، وہ اسے لے آئیں، تو انہوں نے کہا: دیکھو اللہ کی قسم! یہ تو وہی درہم ہیں جو تم نے مجھے ادا کئے تھے، میں نے اس میں سے ایک درہم بھی ادھر ادھر نہیں کیا ہے، علقمہ بولے: تمہارے باپ عظیم ہیں پھر تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا؟ ۱؎ وہ بولے: اس حدیث کی وجہ سے جو میں نے آپ سے سنی تھی، انہوں نے پوچھا: تم نے مجھ سے کیا سنا تھا؟ وہ بولے: میں نے آپ سے سنا تھا، آپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کسی مسلمان کو دوبار قرض دے، مگر اس کو ایک بار اتنے ہی مال کے صدقے کا ثواب ملے گا“، علقمہ نے کہا: ہاں، مجھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی خبر دی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2430]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9475، ومصباح الزجاجة: 853) (ضعیف)» (سند میں قیس بن رومی مجہول، اور سلیمان بن یسیر ضعیف ہیں، اس لئے یہ ضعیف ہے، مرفوع حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1389)
وضاحت: ۱؎: یہ تعریفی کلمہ ہے۔ یعنی جب تمہیں ان کی ضرورت نہیں تھی تو پھر تم نے مجھ سے اتنی سختی سے کیوں مطالبہ کیا تھا۔ تو ہر بار قرض میں آدھے صدقہ کا ثواب ہے، دوبارہ قرض دے تو گویا اتنا کل مال صدقہ دیا۔ اسی وجہ سے سلیمان نے سخت تقاضا کر کے اپنا قرض وصول کر لیا تاکہ علقمہ کو دوبارہ قرض لینے کی ضرورت ہو اور ان کا ثواب زیادہ ہو، سبحان اللہ، اگلے لوگ ثواب کے کیسے حریص اور طالب تھے، آگے حدیث میں ہے کہ قرض میں صدقہ سے زیادہ ثواب ہے، یہ حدیث بظاہر اس کے مخالف ہے اور ممکن ہے کہ یہ حدیث مطلق قرض میں ہو اور وہ اس قرض میں جس میں مقروض سے تقاضا نہ کرے یا جو سخت ضرورت کے وقت دے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا المرفوع منه فحسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف سليمان بن يسير: ضعيف (تقريب: 2620) قيس بن رومي: مجھول (تقريب: 5574) وللحديث شاھد ضعيف عند أحمد (1/ 412) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا، میں نے کہا: جبرائیل! کیا بات ہے؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے؟ تو کہا: اس لیے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2431]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1703، ومصباح الزجاجة: 854) (ضعیف جدا)» (خالد بن یزید متروک ہے، یحییٰ بن معین نے تکذیب کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: 3637)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا خالد بن يزيد: ضعيف ولبعض حديثه شاهد ضعيف عند الطبراني (297/8 ح 7976) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466
یحییٰ بن ابی اسحاق ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ہم میں سے ایک شخص اپنے مسلمان بھائی کو مال قرض دیتا ہے، پھر قرض لینے والا اس کو تحفہ بھیجتا ہے تو یہ عمل کیسا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم میں سے جب کوئی کسی کو قرض دے، پھر وہ اس کو تحفہ دے یا اسے اپنے جانور پر سوار کرے، تو وہ سوار نہ ہو اور نہ تحفہ قبول کرے، ہاں، اگر ان کے درمیان پہلے سے ایسا ہوتا رہا ہو تو ٹھیک ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2432]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1655، ومصباح الزجاجة: 855) (ضعیف)» (سند میں عتبہ بن حمید الضبی ضعیف ہیں، اور یحییٰ بن أبی اسحاق الہنائی مجہول الحال، تراجع الألبانی: رقم: 329)
وضاحت: ۱؎: یعنی قرض دینے سے پہلے بھی اس کے پاس سے تحفہ آیا کرتا ہو، یا وہ سواری دیا کرتا ہو تو اب بھی اس کا قبول کرنا درست ہے اور جو قرض سے پہلے اس کی عادت نہ تھی تو یقیناً اس کا سبب قرض ہو گا اور ہماری شریعت میں قرض دے کر منفعت اٹھانا درست نہیں، اور بخاری نے تاریخ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی کسی کو قرض دے تو اس کا تحفہ نہ لے، اور بیہقی نے سنن کبری میں ابن مسعود، ابی بن کعب، عبد اللہ بن سلام اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ ان سبھوں نے کہا: جس قرض سے منفعت ہو وہ سود ہے یعنی سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، ان سب احادیث و آثار سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے زمانہ میں جو قرض دے کر اس پر شرح فیصدسے منفعت کی شرط ٹھہراتے ہیں مثلاً سات روپیہ فی صد یا دس روپیہ فی صد، یہ «ربا»(سود) ہے اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے اور اس صورت میں بینک اوردوسرے کاروباری ادارے جو سودی نظام چلاتے ہیں ان سے سودی تعامل اور کاروبار بالکل حرام ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عتبة ليس شاميًا ورواية إسماعيل بن عياش عن غير الشامين ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466