شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو قرض ادا کر سکتا ہو اس کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے، اور اس کو سزا (عقوبت) پہنچانا جائز ہو جاتا ہے“۔ علی طنافسی کہتے ہیں: عزت حلال ہونے کا مطلب ہے کہ قرض خواہ اس کے نادہند ہونے کی شکایت لوگوں سے کر سکتا ہے، اور عقوبت پہنچانے کے معنیٰ اس کو قید میں ڈال دینے کے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2427]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأقضیة 29 (3628)، سنن النسائی/البیوع 98 (4693)، (تحفة الأشراف: 4838)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/222، 388، 389) (حسن)» (سند میں محمد بن میمون مجہول راوی ہیں، جن سے وبر طائفی کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1434)
ہرماس بن حبیب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قرض دار کو لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پیچھے لگے رہو“، پھر آپ شام کو میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”اے بنی تمیم کے بھائی! تمہارا قیدی کہاں ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2428]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأقضیة 29 (3629)، (تحفة الأشراف: 15544) (ضعیف)» (ہرماس بن حبیب اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3629) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اونچی ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو آپ گھر سے نکل کر ان کے پاس آئے، اور کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، تو وہ بولے: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو“، اور اپنے ہاتھ سے آدھے کا اشارہ کیا، تو وہ بولے: میں نے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اٹھو، جاؤ ان کا قرض ادا کرو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2429]