الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
22. بَابُ: تَخْيِيرِ الصَّبِيِّ بَيْنَ أَبَوَيْهِ
22. باب: بچے کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس رہنا چاہے رہے۔
حدیث نمبر: 2351
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ غُلَامًا بَيْنَ أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَقَالَ:" يَا غُلَامُ هَذِهِ أُمُّكَ وَهَذَا أَبُوكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ اپنے باپ کے پاس رہے یا ماں کے پاس اور فرمایا: بچے! یہ تیری ماں ہے اور یہ تیرا باپ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2351]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 35 (2277)، سنن الترمذی/الأحکام 21 (1357)، سنن النسائی/الطلاق 5 (3526)، (تحفة الأشراف: 15463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/447)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2339) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی تو جس کے ساتھ چاہے جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 2352
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ أَبَوَيْهِ اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا كَافِرٌ وَالْآخَرُ مُسْلِمٌ، فَخَيَّرَهُ فَتَوَجَّهَ إِلَى الْكَافِرِ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اهْدِهِ". فَتَوَجَّهَ إِلَى الْمُسْلِمِ فَقَضَى لَهُ بِهِ.
رافع بن سنان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے ماں اور باپ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، ان میں سے ایک کافر تھے اور ایک مسلمان، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (رافع) کو اختیار دیا (کہ جس کے ساتھ جانا چاہیں جا سکتے ہیں) وہ کافر کی طرف متوجہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ہدایت دے، پھر وہ مسلمان کی طرف متوجہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (مسلمان) کے پاس ان کے رہنے کا فیصلہ فرما دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2352]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏حدیث عبد الحمید بن سلمة عن أبیہ عن جدہ، علی أن إسم أبویہ لایعرفان تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشرا ف: 15586، مصباح الزجاجة: 852)، وحدیث عبد الحمید بن سملة عن جدہ رافع بن سنان أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 26 (2244)، سنن النسائی/الطلاق 52 (3525)، (تحفة الأشراف: 3594) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عبدالحمید بن سلمہ عن أبیہ عن جدہ تینوں مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 41 19)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن