سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کے ارادے سے نکلے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کو ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا، تو لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، آخر میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، تو اس نے انہیں چھوڑ دیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور میں نے آپ کو بتایا کہ لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، اور میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سچ کہا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2119]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأیمان 8 (3256)، (تحفة الأشراف: 4809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/79) (ضعیف)» (قصہ کے تذکرہ کے ساتھ یہ ضعیف ہے لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم کا اعتبار صرف قسم دلانے والے کی نیت پر ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2120]
وضاحت: ۱؎: گو قسم کھانے والا دوسرا کچھ مطلب رکھ کر قسم کھائے یعنی توریہ کرے تو اس کا توریہ اس کو مفید نہ ہو گا بلکہ جھوٹی قسم کا وبال اس پر ہو گا، اس حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم کھا کر دوسرے کا حق دبانا چاہے اور اگلی حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کی ظالم کے ظلم سے جان یا عزت بچانی مقصود ہو، اور دونوں قسموں میں منافات نہ ہو گی۔ امام احمد رحمہ اللہ کا قول اس حدیث کے موافق ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہو گی جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2121]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «أنظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث بھی اس مقام پر محمول ہے کہ معاملات میں آدمی قسم کھائے تو قسم دینے والے کے مطلب پر ہو گی، جیسے اگلی حدیث ہے۔