انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر تو وہ ہے جو مصیبت کے اول وقت میں ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1596]
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدمی! اگر تم مصیبت پڑتے ہی صبر کرو، اور ثواب کی نیت رکھو، تو میں جنت سے کم ثواب پر تمہارے لیے راضی نہیں ہوں گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1597]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4911، ومصباح الزجاجة: 577)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/258) (حسن)» (شواہد کی بنا پر حسن ہے)
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آئے، تو وہ گھبرا کر اللہ کے فرمان کے مطابق یہ دعا پڑھے: «إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندك احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وعضني منها»”ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ! میں نے تجھی سے اپنی مصیبت کا ثواب طلب کیا، تو مجھے اس میں اجر دے، اور مجھے اس کا بدلہ دے“ جب یہ دعا پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر دے گا، اور اس سے بہتر اس کا بدلہ عنایت کرے گا“۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب (میرے شوہر) ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا، تو مجھے وہ حدیث یاد آئی، جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر مجھ سے بیان کی تھی، چنانچہ میں نے کہا: «إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم عندك احتسبت مصيبتي فأجرني فيها وعضني منها» اور جب «وعضني خيرا منها»”مجھے اس سے بہتر بدلا دے“ کہنے کا ارادہ کیا تو دل میں سوچا: کیا مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر بدلہ دیا جا سکتا ہے؟ پھر میں نے یہ جملہ کہا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بدلہ میں دے دیا اور میری مصیبت کا بہترین اجر مجھے عنایت فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1598]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات 84 (3511)، (تحفة الأشراف: 6577)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/27) (صحیح)» (سند میں عبد الملک بن قدامہ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) ایک دروازہ کھولا جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا، یا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اچھی حالت میں دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا، اور امید کی کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو ان کے درمیان آپ کے انتقال کے بعد بھی باقی رکھے گا، اور فرمایا: ”اے لوگو! لوگوں میں سے یا مومنوں میں سے جو کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے، تو وہ میری وفات کی مصیبت کو یاد کر کے صبر کرے، اس لیے کہ میری امت میں سے کسی کو میرے بعد ایسی مصیبت نہ ہو گی جو میری وفات کی مصیبت سے اس پر زیادہ سخت ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1599]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17774، ومصباح الزجاجة: 578) (صحیح)» (سند میں موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1106)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ مومن وہی ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اولاد اور والدین اور سارے رشتہ داروں سے زیادہ ہو، پس جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو یاد کرے گا تو ہر طرح کے رشتہ داروں اور دوست و احباب کی موت اس کے سامنے بے حقیقت ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف موسي بن عبيدة: ضعيف ولحديثه شواھدضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436
حسین بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے کوئی مصیبت پیش آئی ہو، پھر وہ اسے یاد کر کے نئے سرے سے: «إنا لله وإنا إليه راجعون» کہے، اگرچہ مصیبت کا زمانہ پرانا ہو گیا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھے گا جتنا اس دن لکھا تھا جس دن اس کو یہ مصیبت پیش آئی تھی ۱؎“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1600]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3414، ومصباح الزجاجة: 579)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/201) (ضعیف جدا)» (سند میں ہشام بن زیاد متروک اور ان کی والدہ مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4551)
وضاحت: ۱؎: مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی مصیبت یاد کرکے ہم اس وقت «إنا لله وإنا إليه راجعون» کہیں تو وہی ثواب ہم کو ملے گا جو صحابہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ملا تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث خاص ہے اس مصیبت سے جو خود اسی شخص پر گزر چکی ہو۔ واللہ اعلم
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا ھشام بن زياد: متروك انوار الصحيفه، صفحه نمبر 436